علم غیب، حاضر و ناظر اور سجود لغیر اللہ:

سوال: تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔ شرک کے مسئلہ پر ذہن الجھ گیا ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع و بصیر ہونا (جس کے تحت ہمارے مروجہ الفاظ حاضر و ناظر بھی آجاتے ہیں) بھی شامل ہیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے اور حقوق میں سجدہ و رکوع وغیرہ بھی ذات باری تعالیٰ سے مختص ہیں۔ شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابل تلافی گناہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے، نہ کرواتا ہے۔ مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اللہ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟

لفظ ’’مشرک‘‘ کا اصطلاحی استعمال

سوال: آپ کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بابت ماہ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب ’’رسائل و مسائل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔ لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوئے حق کے جذبہ کے تحت سطور ذیل رقم کر رہا ہوں۔

کتاب و سنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عالم ما کان وما یکون اور ’’حاضر و ناظر ہونا‘‘ اللہ جل شانہ کی مختص صفات ہیں۔ بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کا وجود حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کرلے تو کتاب و سنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب و سنت کے احکام سے رو گردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضائے انصاف ہے۔

تعداد رکعات تراویح:

سوال: آپ کا ایک جواب دربارۂ تراویح ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور مورخہ ۶۲۔۳۔ ۷ میں شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسئلے کی کوئی عالمانہ تحقیق نہیں کی، بلکہ ایک چلتی سی بات سمجھوتہ کرانے والوں کی سی کردی ہے جس سے مسئلہ بجائے سلجھنے کے الجھ گیا ہے۔ ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں۔ دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بیس جاری کیں اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس پر اتفاق کیا اور بعد کے خلفاء نے اسی کو دستور بنایا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سنت نبوی آٹھ ہی ہے تو پھر حضرت عمرؓ نے بیس کہاں سے لے لیں اور کیونکر ان کو مقرر کردیا۔ تمام صحابہ کرامؓ و خلفا نے سنت نبویﷺ کو نظرانداز کرکے بیس پر کیسے اجماع کرلیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ ایسی جسارت کریں۔ (مولانا یا تو آٹھ سنت نبوی نہیں یا پھر بیس پر اجماع نہیں)۔

دلچسپ مین میخ

سوال: مہربانی فرما کر نہایت صاف اور سادہ الفاظ میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تحریر فرما کر مشکور فرمائیں، تاکہ ان معاملات میں ہماری غلط فہمی اور لاعلمی دور ہو جائے۔

سپاسنامے اور استقبال

سوال: ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو فاران کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے، شاید آپ کی نظر سے گزارا ہو۔ میرا خیال ہے کہ زیرِ بحث مسئلہ پر اگر آپ خود اظہارِ رائے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہو گا، اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاسنامے خود آپ کی رضامندی سے پیش ہو رہے ہیں تو آپ اس تمدنی، اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعویدار رہا ہو، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ اگر آپ سپاسنامہ کے اس پورے عمل کو جائز ثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آپ کے اصول کے مطابق، احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جائے اور کنویں کی مڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجائے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟

غلط الزامات

سوال: ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب آپ کے خلاف تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔ ان میں جو الزامات وہ آپ پر لگاتے ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ آپ نے اپنی کتاب ’’تفہیمات‘‘ میں سرقہ کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ظلم قرار دیا ہے۔

۲۔ آپ نے ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ قیامت کے بعد یہ زمین جنت بنا دی جائے گی، یعنی جنت آئندہ بننے والی ہے، اب کہیں موجود نہیں ہے، نہ پہلے سے بنی ہوئی ہے۔

۳۔ آپ نے ترجمان القرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، وہ اسی زمین پر تھی حالانکہ یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔

براہِ کرم ان الزامات کی مختصر توضیح فرما دیں تاکہ حقیقتِ حال معلوم ہو سکے۔

فتنہ پردازی کا مرضِ لاعلاج

سوال: رسائل و مسائل اوّل میں صفحہ۵۳ پر آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ ان الفاظ سے متباور یہی ہوتا ہے کہ آپ سرے سے دجال ہی کی نفی کر رہے ہیں۔ اگرچہ اسی کتاب کے دوسرے ہی صفحہ پر آپ نے توضیح کر دی ہے کہ جس چیز کو آپ نے افسانہ قرار دیا ہے وہ بجائے خود دجال کے ظہور کی خبر نہیں بلکہ یہ خیال ہے کہ وہ آج کہیں مقید ہے، لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ مقدم الذکر عبارت ہی میں ترمیم کر دیں، کیونکہ اس کے الفاظ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ناقابلِ توجیہ حوادثِ حیات

سوال: انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب و فساد کا پہلو تعمیر و اصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آ گئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم و خبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے، تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور الجھن اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔

خواب میں زیارتِ نبویؐ

سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریر فرما کر تشفی فرمائیں۔

حضورﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا۔ اور کماقال۔

اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟ کیا نبیﷺ کو جس شکل و شباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورﷺ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟ کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپ ہی کو دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟

گول مول جوابات

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلہ کا گول مول جواب دیتے ہیں، اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہو کر انکار کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں، کیونکہ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ ہمیشہ مسئلہ کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں۔ خدا کرے میرا یہ حسنِ ظن قائم رہے۔