غلط الزامات

سوال: ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب آپ کے خلاف تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔ ان میں جو الزامات وہ آپ پر لگاتے ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ آپ نے اپنی کتاب ’’تفہیمات‘‘ میں سرقہ کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ظلم قرار دیا ہے۔

۲۔ آپ نے ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ قیامت کے بعد یہ زمین جنت بنا دی جائے گی، یعنی جنت آئندہ بننے والی ہے، اب کہیں موجود نہیں ہے، نہ پہلے سے بنی ہوئی ہے۔

۳۔ آپ نے ترجمان القرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، وہ اسی زمین پر تھی حالانکہ یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔

براہِ کرم ان الزامات کی مختصر توضیح فرما دیں تاکہ حقیقتِ حال معلوم ہو سکے۔

جواب: اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو راست بازی و دیانت داری کی توفیق بخشے۔ افسوس ہے کہ یہ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ کی عجیب مثالیں پیش کر رہے ہیں اور کچھ نہیں سوچتے کہ سب کچھ یہی دنیا تو نہیں ہے۔ کبھی خدا کے سامنے بھی حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ جو الزامات آپ نے نقل کیے ہیں، ان کا مختصر جواب یہ ہے:

غیراسلامی نظام میں اجرائے حدودِ شرعیہ:

۱۔ صاحبِ موصوف کا اشارہ ’’تفہیمات‘‘ جلد دوم کے اس مضمون کی طرف ہے جو صفحہ ۲۸۰ تا ۲۸۵ پر درج ہے۔ آپ اسے خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ سارا مضمون ان لوگوں کے شبہات کی تردید میں لکھا گیا ہے جو موجود تہذیب سے متاثر ہو کر حدودِ شرعیہ کو ظالمانہ اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے دلائل دیتے ہوئے میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی قانون فوجداری کی دفعات اس مملکت کے لیے ہیں جس میں پورا اسلامی نظامِ زندگی قائم ہو، نہ کہ اس مملکت کے لیے جس میں سارا نظام کفر کے طریقوں پر چل رہا ہو اور صرف ایک چوری یا زنا کی سزا اسلام کے قانون سے لے لی جائے۔ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا عین انصاف ہے، اگر ملک کا معاشی نظام بھی اس کے ساتھ اسلامی احکام کے مطابق ہو، اور یہ قطعی ظلم ہے، اگر ملک میں اسلام کے منشا کے خلاف سود حلال اور زکوٰۃ متروک ہو اور حاجت مند انسان کی دست گیری کا کوئی نظام نہ ہو۔ اس ساری گفتگو میں سے اگر کوئی شخص صرف اتنی سی بات نکال لے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کو یہ شخص ظلم کہتا ہے تو آپ خود ہی سوچیے کہ اس کی سخن فہمی کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا۔

جنت کا محلِ وقوع:

۲۔ یہ مضمون ترجمان القرآن بابت مئی ۱۹۵۵ء میں دو مقامات پر بیان ہوا ہے۔ ایک صفحہ۹۹۔۱۲۰ پر۔ دوسرے صفحہ۱۸۸۔۱۹۰ پر دونوں جگہ قرآن سے استدلال کرتے ہوئے میں نے یہ تو ضرور کہا ہے کہ یہ زمین عالمِ آخرت میں جنت بنا دی جائے گی اور صرف صالحین ہی اس کے وارث ہوں گے، مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ کوئی جنت اب موجود نہیں ہے نہ پہلے سے بنی ہوئی ہے۔ آخر یہ دوسرا مضمون میرے قول میں سے کس طرح نکل آیا اور کہاں سے نکل آیا؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں جگہ مکان بنایا جائے گا تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ اس وقت کسی جگہ کوئی مکان نہیں ہے، نہ پہلے کبھی بنایا گیا ہے۔ دوسرے کی بات میں ایک بات اپنی طرف سے بڑھا کر الزام کی گنجائش نکالنے کا یہ عجیب طریقہ ہے۔

۳۔ اس خیال کا اظہار بے شک میں نے کیا ہے کہ حضرت آدمؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، وہ اسی زمین پر تھی، مگر یہ آخر کون سا گناہ ہے اور کس عقیدے سے ٹکراتا ہے۔ مفسرین نے اس مسئلے پر تین قول اختیار کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جنت آسمان پر تھی۔ دوسرا یہ کہ وہ زمین پر تھی۔ تیسرا یہ کہ اس معاملہ میں سکوت ہی بہتر ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں قول واجب الاذعان اسلامی عقیدہ ہے اور اس کے خلاف کہنے والا قابلِ الزام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسرا قول بعض معتزلی علماء نے اختیار کیا ہے۔ مگر یہ معتزلہ کے ان مخصوص مسائل میں سے نہیں ہے جن کی بنا پر وہ معتزلی قرار دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ہر بات اعتزال اور ہر ایک رد کر دینے کے لائق تھی تو یہ بڑی زیادتی ہے۔ ان کے شدید ترین مخالف امام رازی تک نے ابو مسلم اصفہانی اور زمحشری جیسے معتزلیوں کی بہت سی باتوں کو قبول کیا ہے اور دوسرے اہلِ علم نے بھی ان کو علمی اچھوت نہیں سمجھا کہ ایک بات کو صرف اس لیے رَد کر دیں کہ وہ کسی معتزلی نے کہی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاوّل ۱۳۷۵ھ۔ نومبر ۱۹۵۵ء)