رمضان میں قیام اللیل

سوال: براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:

(۱) علمائے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اول وقت میں (عشاء کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت موکدہ کفایہ ہے۔ یعنی اگر کسی محلہ میں تراویح یا جماعت نہ ادا کی جائے تو اہل محلہ گناہ گار ہوں گے اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمہ سے ترک جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کیوں ایسا نہیں ہوا؟ اور اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح با جماعت نہ پڑھنے سے گناہ گار تھے؟

قطبین کے قریب مقامات میں نماز روزے کے اوقات

سوال: میرا ایک لڑکا ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان گیا ہوا ہے، آج کل وہ ایک ایسی جگہ قیام رکھتا ہے جو قطب شمالی سے بہت قریب ہے۔ وہ نمازوں اور روزوں کے اوقات کے لیے ایک اصولی ضابطہ چاہتا ہے۔ بارش، بادل اور دھند کی کثرت سے وہاں سورج بالعموم بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ کبھی دن بہت بڑے ہوتے ہیں، کبھی بہت چھوٹے۔بعض حالات میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں بیس گھنٹے کا فصل ہوگیا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بیس گھنٹے یا اس سے زائد روزہ رکھنا ہوگا؟

کیا روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود فدیہ دیا جاسکتا ہے؟

سوال: یہاں کیمبل پور میں ایک صاحبِ علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے میں سورۃ بقرہ کی آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے شروع میں جو رعایت دی ہے کہ ’’جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں، اور پھر نہ رکھیں تو وہ فدیہ ادا کریں‘‘۔ یہ ایک اٹل رعایت ہے اور اب بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس کی حمایت میں ایک آیت ۱۸۳ کے آخری حصہ کو پیش کیا گیا ہے کہ اگر روزہ رکھو تو بہتر ہے اور نہ رکھو تو فدیہ ادا کردو۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت۱۸۴ پہلی آیات کے ساتھ نازل ہوئی تھی، وہ پہلی آیات کی رعایت کو کیسے چھین سکتی ہے۔

تعداد رکعات تراویح:

سوال: آپ کا ایک جواب دربارۂ تراویح ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور مورخہ ۶۲۔۳۔ ۷ میں شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسئلے کی کوئی عالمانہ تحقیق نہیں کی، بلکہ ایک چلتی سی بات سمجھوتہ کرانے والوں کی سی کردی ہے جس سے مسئلہ بجائے سلجھنے کے الجھ گیا ہے۔ ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں۔ دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بیس جاری کیں اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس پر اتفاق کیا اور بعد کے خلفاء نے اسی کو دستور بنایا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سنت نبوی آٹھ ہی ہے تو پھر حضرت عمرؓ نے بیس کہاں سے لے لیں اور کیونکر ان کو مقرر کردیا۔ تمام صحابہ کرامؓ و خلفا نے سنت نبویﷺ کو نظرانداز کرکے بیس پر کیسے اجماع کرلیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ ایسی جسارت کریں۔ (مولانا یا تو آٹھ سنت نبوی نہیں یا پھر بیس پر اجماع نہیں)۔