کیا بالغ عورت خود اپنا نکاح کرلینے میں مجاز ہے؟

سوال: علماء احناف اور علماء اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلہ میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلا ولی کی صورت میں بلا تامل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔ فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں۔

شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ

سوال: ترجمان القرآن بابت ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ میں آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے جواب میں ایک جگہ ایسے تسامح سے کام لیا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ مولانا موصوف نے آپ سے دریافت کیا تھاکہ ’’کیا ایک سید ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے سید نہ رہے گا بلکہ جُلاہا بن جائے گا؟ ‘‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے بھی جواب میں دبی زبان سے اس غیر اسلامی امتیاز کو یہ کہہ کر تسلیم کرلیا کہ ’’دارالکفر کے ایک سید صاحب، دارالاسلام کی ایک سیدانی کے باعتبار نسب کفو ہی سہی۔‘‘ آپ کے الفاظ مبہم ہیں۔ کیا آپ بھی مسئلہ کفو کو اسلام میں جائز سمجھتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو آپ قرآن و حدیث سے استشہاد پیش فرماکر میرا اطمینان فرمائیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ دنیا کے کام کاج اور پیشوں کو انسانیت کی اونچ نیچ میں کیوں دخل ہو؟ بنی نوع انسان سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔ کیا حضرت داؤدؑ نے اگر لوہے کا کام کیا ہے تو وہ لوہار ٹھہریں گے؟

نکاح شغار

سوال: مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اصول پر کرتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کئی اشخاص مل کر اس طرح کاادل بدل کرتے ہیں۔ مثلاً زید بکر کے لڑکے کے ساتھ، بکر عمر کے لڑکے کے ساتھ اور عمر زید کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکیوں کا نکاح کر دیتے ہیں۔ ان صورتوں میں عموماً مہر کی ایک ہی مقدار ہوتی ہے۔ بعض علمائے دین اس طریقہ کو شغار کہتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شغار کو نبیﷺ نے منع فرمایا ہے بلکہ حرام قرار دیا ہے۔

منگنی کا شرعی حکم

سوال: کیا شرعی لحاظ سے خطبہ نکاح کا حکم رکھتا ہے؟ عوام اس کو ایجاب و قبول کا درجہ دیتے ہیں۔ اگر لڑکی کے والدین ٹھہری ہوئی بات کو رد کردیں تو برادری میں ان کا مقاطعہ تک ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اگر والدین اس لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کردیں تو کیا یہ فعل درست ہوگا؟

مہر غیر مؤجل کا حکم

سوال:اگر بوقت نکاح زر مہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معّجل ہے یا مؤجل تو آیا اس کو معّجل قرار دیا جائے گا یا مؤجل؟ اس مسئلہ سے استفتاء کیا گیا مگر جواب مختلف آئے۔ مثلاًچند جوابات یہ ہیں: مولانا محمد کفایت اللہ صاحب ودیگر علماء دہلی: ’’اگر مہر میں مؤجل کی تصریح بھی ہو مگر اجل مجہول بحالت فاحشہ ہو تو مہر معّجل ہوجاتا ہے اور جبکہ معّجل یا مؤجل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ واجب الادا کا لفظ لکھ دیا جائے تو یہ…

توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح

سوال: مندرجہ ذیل سطور بغرض جواب ارسال ہیں۔ کسی ملاقاتی کے ذریعے بھیج کر ممنون فرمائیں۔

بہاول پور میں دو توأم لڑکیاں متحد الجسم ہیں یعنی جس وقت وہ پیدا ہوئیں تو ان کے کندھے، پہلو، کولہے کی ہڈی تک آپس میں جڑے ہوئے تھے اور کسی طرح ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اپنی پیدائش سے اب جوان ہونے تک وہ ایک ساتھ چلتی پھرتی ہیں۔ ان کو بھوک ایک ہی وقت لگتی ہے۔ پیشاب پاخانہ کی حاجت ایک ہی وقت ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی عارضہ لاحق ہو تو دوسری بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کا نکاح ایک مرد سے ہوسکتا ہے یا نہیں۔ نیز اگر دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی ہیں تو اس کے لیے شرعی دلیل کیا ہے؟

منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادی عمل کی حدود

سوال: یہاں لندن میں ایک مسلمان طالب علم ایک جرمن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسلمان بننے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لہٰذا میں نے شادی رکوانے کی کوشش کی۔ صاحب زادے کو سمجھایا کہ وہ کیوں کر برداشت کرے گا کہ اس کے گھر میں سور کا گوشت کھایا جائے اور شراب پی جائے۔ لڑکی غیر مسلم ہوئی تو ہمارے محرمات کا خیال نہیں کرے گی اور گھر برباد ہوجائے گا۔ لڑکے کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ کچھ متذبذب ہوگیا۔ انہی دنوں اسلامک سینٹر کے مصری ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی۔ ان صاحب نے ڈاکٹر آر بری کے ساتھ مل کر ایک کتاب شائع کرائی ہے اور اب جامعہ ازہر کی کلیہ شریعہ کے صدر ہو کر واپس مصر گئے ہیں۔ انہوں نے اس لڑکے سے کہا کہ اگر اس کی بیوی عیسائی رہتی ہے تو اسے کوئی حق نہیں کہ لڑکی کو شراب، سور وغیرہ سے روکے۔ جو چیز اس کے مذہب میں جائز ہے، اسے کرنے کی اسلام نے اسے آزادی دی ہے۔ مسلمان شوہر مداخلت کرکے گناہ گار ہوگا۔

لفظِ نکاح کا اصل مفہوم

سوال: ترجمان القرآن بابت ماہ مارچ ۱۹۶۲ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں، ان میں سے پہلے ہی مسئلہ میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘ یا قرآن اسے اصطلاحاً ’’صرف عقد کے لیے استعمال کرتا ہے‘‘۔ یہ قاعدہ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔ تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے رائے دی ہو آپ نے قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔

عورت کی عصمت و عفت کا مستقبل

سوال: مارننگ نیوز (کراچی) کا ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔ اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلہ میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ صوری کشش، عقلمندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبہ تعاون، صبر و تحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفاداری۔

سرہربرٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انہوں نے اگست ۱۹۴۵ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔ سرہربرٹ نے اپنی عدالت میں سینکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے ۸۶ برس کی عمر پاکر جنوری ۱۹۶۲ء میں وفات پاگئے ہیں۔

اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاکدامنی جیسی خوبی کو ان چودہ نکاتی فہرست میں برائے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفادار رہ سکتی ہے؟