خُروج کے مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک

سوال: ترجمان القرآن نومبر ۶۳ء کے پرچہ میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا جو مسئلہ خلافت کے مطالعہ سے امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئینِ ترجمان کے معلومات میں اضافہ کا موجب بنے۔

سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 1

پچھلے چند مہینوں سے ترجمان القرآن میں خلافت کے متعلق جو بحث چل رہی ہے اس سلسلے کے مضمون ’’خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘ کے آخری حصے اور ’’خلافت سے ملوکیت تک‘‘ کی پوری بحث پر میرے پاس بکثرت سوالات و اعتراضات آئے ہیں۔ ان سب کو نقل کرکے ان کے جوابات دینے میں بہت طوالت ہوجائے گی۔ اس لیے میں ان سب کا اکھٹا جواب ان صفحات میں دے رہا ہوں۔ جواب کے ہر عنوان سے سوال یا اعتراض کی نوعیت خود واضح ہوجائے گی۔

ابوالاعلیٰ مودودی

سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 2

اب میں اصل مسائل کی طرف آتا ہوں جو اس سلسلئہ مضامین میں زیر بحث آئے ہیں۔ اقرباء کے معاملے میں حضرت عثمانؓ کے طرز عمل کی تشریح سیدنا عثمانؓ نے اپنے اقرباء کے معاملے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا اس کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ شبہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ کسی بد نیتی پر مبنی تھا۔ ایمان لانے کے وقت سے ان کی شہادت تک ان کی پوری زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے مخلص ترین اور محبوب ترین صحابیوں میں سے تھے۔ دین حق…

خلافت و ملوکیت

سوال: میں نے جناب کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور عباسی صاحب کی جوابی کتاب ’’تبصرہ محمودی‘‘ حصہ اول و دوم کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عباسی صاحب اسلام کے سیاسی نظام کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسلام کا جو سیاسی نظریہ پیش فرمایا ہے وہ ذہنی پیچیدگی کا شاہکار ہے۔ البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب چند باتوں کی وضاحت کردیں تو آپ کے خلاف پروپیگنڈا علمی طبقہ میں مؤثر نہ ہوسکے گا۔ وضاحت طلب امور یہ ہیں: عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی طریقہ انتخاب برائے خلیفہ معین نہیں ہے اس لیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عوام کا اجتماع نہ تھا بلکہ چند افراد جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی بھی نہ تھی جمع ہوئے اس لیے یہاں عوامی رائے یا تائید کا کوئی سوال نہیں تھا۔