خُروج کے مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک

سوال: ترجمان القرآن نومبر ۶۳ء کے پرچہ میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا جو مسئلہ خلافت کے مطالعہ سے امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئینِ ترجمان کے معلومات میں اضافہ کا موجب بنے۔

’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابو حنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ امام اعظمؒ نہ تو خوارج و معتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پاسکے۔ اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کے رہ جائے، اور نہ وہ مرجیہ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے۔ لیکن یہ امامت بجائے خود ناجائز اور باطل ہوگی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد و بدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہوجانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔

اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے‘‘۔ اور ’’امام اعظم کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابو حنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبہ سے بھی مسلط ہو جائے جس کو فقہا کی اصطلاح میں ’’متغلب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم فاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، اگر امام ابو حنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ کر کے معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج و بغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید فقہائے مذہب حنفی کے درج ذیل اقوال سے ہوسکتی ہے:

والامام یصیرا مامًا بالمبایعۃ من الاشراف والاعیان۔ وکذا باستخلاف امام قبلہ وکذا بالتغلب واقھر کما فی شرح المقاصد۔ قال فی المسائرۃ ویثبت عقد الامامۃ اما باستخلاف الخلیفۃ ایاہ واما ببیعۃ جماعۃ من العلماء اومن اھل الرأی و التدبیر … ولو تعذر وجود العلم والعدالۃ فیمن تصدی للامامۃ وکان فی صرفہ عنھا اثارۃ فتنۃ لاتطاق حکمنا بانعقاد امامتہ کیلا نکون کمن یبنی قصراً ویھدم مصرا … وتجب طاعۃ الامام عادلًا کان اوجائراً اذا لم یخالف الشرع فقد علم ان الامام یصیرا ما مًا بثلاثۃ امور لکن الثالث فی الامام المتغلب۔ وان لم تکن فیہ شروط الامامۃ۔ اھ (ردالمحتار، ج ۳، ص ۴۲۸)۔

بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت امامت کے لیے نہیں بلکہ اولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔ وعند الحنفیۃ لیست العدالۃ شرطاً للصحۃ فیصح تقلید الفاسق الامامۃ مع الکراھۃ اھ (شامی، ج۱، ص ۵۱۲)۔ اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔ وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ اھ ایسے فاسق کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے: ویجب ان یدعی لہ ولا یجب الخروج علیہ کذا عن ابی حنیفۃ اھ۔ یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسائرہ میں ذکر کی ہیں۔ جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق ظالم کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقہ سے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجب فتنہ نہ ہوں۔ اور چونکہ فی زمانہ ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہوجاتا ہے اس لیے بعض احنافؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: اما الخروج علی الامراء فمحروم باجماع المسلمین وان کانوا فسقۃ ظالمین اھ (مرقات) اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہوگا۔

مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہائے حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں:

امام سرخسیؒ مبسوط، ج ۱۰، ص ۱۲۴ میں لکھتے ہیں: ’’فان کان المسلمون مجتمعین علیٰ واحد و کانوا امنین بہٖ والسبیل اٰمنۃ فخرج علیہ طائفۃ من المسلمین فحینئذٍ یجب علی من یقوی علی القتال ان یقاتل مع امام المسلمین الخارجین اھ۔ وجوبِ قتال کے لیے امام سرخسیؒ نے تین دلائل بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے: فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ دوسری دلیل امام موصوف نے وجوب قتال کے لیے یہ بیان کی ہے: والان الخارجین قصدوا أذی المسلمین واما طۃ الاذی من ابواب الدین۔ وخروجھم معصیۃ ففی القیام بقتالھم نھی عن المنکر وھو فرض۔ اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے: ولانّھم یھیجون الفتنۃ قال ﷺ الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ من ایقظہا فمن کان ملعونا علی لسان صاحب الشرع یقاتل معہ اھ۔ ان تمام عبارات سے تو یہ واضح ہوگیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطۂ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہو۔ اس کی طرف حضورؐ کے درج ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے:

امرت ان اقاتل الناس حتّٰی یقولوا لَا الہٰ الّا اللہ وانَّ محمدًا رسول اللہ فاذا فعلوا ذالک عصموا منی دماء ھم واموالھم۔ الحدیث۔

پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے مذہب حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں: واما بیان من یجرز قتلہ منھم ومن لا یجوز فکل من لّایجوز قتلہ من اھل الحرب من الصبیان والنسوان والا شیاخ والعمیان لَا یجوز قتلہٗ من اھل البغی۔ لان قتلھم لدفع شرّقتالھم فیختص باھل القتال وھٰو لآء لیسوا من اھل القتال فلا یقتلون الااذا قاتلوا فیباح قتلھم فی حال القتال و بعد الفراغ من القتال اھ( ج ۷، ص ۱۴۱)

فقہا کی ان تصریحات کے پیش نظر باغیوں کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کردیا جائے گا۔

البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں واپس کیا جائے گا وکذالک ما اصیب من اموالھم یرد الیھم لانہ لم یتملک ذالک المال علیہم لبقاء العصمۃ بالدار و الاحراز فیہ اھ (مبسوط، ج ۱۰، ص ۱۲۶) فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کرسکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کرچکے تھے کہ اگر ہم نے آئندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہوگا یا نہیں، اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابو حنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اورمال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں؟

پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سرخسیؒ کے بیان کو صرف اس بنا پر قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہل تاریخ سے مختلف ہے۔ حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملہ میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امام فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں۔ تاریخ کے واقعات مرتب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہوسکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امام مذہب کی فقہی مرویات مرتب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سرخسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابن ہمامؒ نے فتح القدیر(ج ۵، ص ۳۴۱) میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلہ میں ابن اثیر یا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالا تر ہے‘‘۔

جواب: امام ابو حنیفہؒ کے مسلک در باب خروج کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کے متعلق مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو تین باتوں پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں۔

اول یہ کہ ابوبکر جصّاص، الموفق المکی، اور ابن البزاز الکَردَری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ سے یہ مخفی نہیں ہوسکتا کہ ابو بکر جصّاص متقدمینِ حنفیہ میں سے ہیں، ابو سہل الزجاج اور ابو الحسن الکرخی کے شاگرد ہیں اور اپنے زمانے میں (۳۰۵، ۳۰۷ھ) امامِ اصحابِ ابی حنیفہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کی کتاب احکام القرآن کا شمار حنفیہ ہی کی فقہی کتابوں میں ہوتا ہے۔ الموفق المکی (۴۸۴۔۵۶۸ھ) بھی فقہائے حنفیہ میں سے تھے اور القفطی کے قول کے مطابق ’’کانت لہ معرفۃ تامۃ فی الفقہ ولادب‘‘۔ الکَردَری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے اور ان کی فتاویٰ بزازیہ، آداب الفقہاء اور مختصر فی بیان تعریفات الاحکام، معروف کتابیں ہیں۔ میں نے جو مواد ان تین حضرات کی کتابوں سے بحوالہ نقل کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کی حیثیت پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔

دوم یہ کہ حضرت زیدؒ بن علی بن حسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام اعظمؒ کا جو طرز عمل مذکورۂ بالا تینوں مصنفین اور بہت سے دوسرے مؤرخین نے بیان کیا ہے، اس کو آپ صحیح اور معتبر تاریخی واقعات میں شمار کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ واقعات غلط ہیں تو آپ ان کی تردید کسی مستند ذریعہ سے فرمائیں۔ اوراگر یہ صحیح ہیں تو امام اعظمؒ کا مسلک سمجھنے میں ان سے مدد لی جاسکتی ہے یا نہیں؟ یہ بات تو بہرحال امام ابو حنیفہؒ جیسی عظیم شخصیت کے متعلق باور نہیں کی جاسکتی کہ ان کی فقہی مسلک کچھ ہو اور عمل کچھ۔ لہٰذا دو باتوں میں سے ایک بات ماننی ہی پڑے گی۔ یا تو یہ واقعات غلط ہیں۔ یا پھر امام کے مسلک کی صحیح ترجمانی وہی ہوسکتی ہے جو ان کے عمل سے مطابقت رکھتی ہو۔

اہل موصل کے بارے میں سمش الائمہ سرخسی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گا کہ دوسرا بیان الکَرْدَرِی کا ہے، اور وہ بھی نرے مورّخ نہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں۔ الکَرْدَری لکھتے ہیں کہ منصور نے فقہاء کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔ ’’الیس صح انہ علیہ السّلام قال المؤمنون عند شروطھم؟ واھل موصل شرطوا علی ان لایخرجوا علّی وقد خرجوا علیٰ عاملی وقد حل لی دماء ھم‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ نے جواب میں فرمایا: ’’انھم شرطوالک مالا یملکونہ یعنی دماء ھم، فانہ قد تقرران النفس لا یجری فیھا البذل والاباحۃ علی ان الرجل اذا قال لآخرا قتلنی فقتلہ تجب الدیۃ وشرطت علیہم ما لیس لک لان دم المسلم لایحل الاباحدی. معان ثلاث فان اخذتھم اخذت بما لا یحل، وشرط اللہ احق ان توفیٰ بہٖ (مناقب الامام الاعظم، ج ۲، صفحہ ۱۶۔۱۷)۔اس عبارت میں سائل اور مفتی دونوں نے تصریح کی ہے کہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق تھا۔

سوال ۲؎ گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ ابوبکر جصاص، الموفق المکی، اور ابن البزاز الکَرْدَرِی کا شمار یقیناً فقہاء میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احکام القرآن اور دوسری وہ کتابیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، بھی معروف کتابیں ہیں۔ لیکن باایں ہمہ رتبے اور درجے کے لحاظ سے ان حضرات کا مقام امام سرخسیؒ کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ اسی طرح امام سرخسیؒ کتاب المبسوط کا درجہ اور مرتبہ احکام القرآن وغیرہ کتب مذکورہ سے محققین احنافؒ کے نزدیک بہت بلند اور مقام بہت اونچا ہے۔ اس لیے فقہیات میں امام اعظمؒ کے مسلک کو متعین کرنے میں المبسوط سرخسیؒ ہی کا فیصلہ معتبر اور قابل اعتماد ہوگا نہ کہ احکام القرآن وغیرہ کتب کا۔ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے محقق ابن کمال سے طبقات الفقہاء کی تفصیل نقل کرتے ہوئے امام سرخسیؒ کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے اور ابوبکر جصاص رازی کو چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جو محض مقلدین کا طبقہ ہے۔

ان تصریحات کے پیش نظر خروج کے مسئلہ میں امام اعظم کا مذہب وہ قرار دیا جائے گا جو مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو احکام القرآن یا دوسری تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔

رہا حضرت زیدؒ بن علی بن الحسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام ابو حنیفہؒ کا طرز عمل، تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے میں اس کوسو فیصد صحیح اور درست سمجھتا ہوں۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ان دونوں کے خروج میں ان کی حمایت کی تھی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مسئلہ کی فقہی نوعیت تاریخی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں حتیٰ کہ کتب ظاہر الروایۃ میں خروج کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام عادل تو درکنار ظالم اور متغلب سے بھی خروج ناجائز اور بغاوت حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دو متضاد بیانات کے مابین یا تطبیق سے کام لینا پڑے گا یا ترجیح سے۔ جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے، ہم فقہاء کے مسلّمہ اصول کے پیش نظر فقہائے مذہب حنفی کے بیان کو مؤرخین کے بیان پر اس لیے ترجیح دیں گے کہ مذہب کے تعیین میں ناقلینِ مذہب کا قول زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اور مؤرخین میں سے جو فقہاء ہیں، جیسے ابوبکر رازی، الموفق المکی اور ابن البزاز، تو یہ چونکہ رتبے اور درجے کے اعتبار سے اصل ناقلینِ مذہب کے ہمسر نہیں ہیں اس لیے ان کا نقل بھی دوسروں کے مقابلہ میں قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا، گو تاریخی نقل اور روایت اصولِ روایت کے لحاظ سے قوی کیوں نہ ہو۔

اور اگر ہم تطبیق کا طریقہ اختیار کریں گے تو میرے ذہن میں تطبیق کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زیدبن علی کے خروج کا واقعہ بقول آپ کے صفر ۱۲۲ھ؁ میں پیش آیا تھا اور نفس زکیہ کے خروج کا واقعہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ ۱۴۵ھ؁ میں ظاہر ہوا تھا۔ اور امام ابو حنیفہؒ بقول ابن کثیرؒ (البدایہ، ج ۱۰، ص ۱۰۷) ۱۵۰ھ؁ میں وفات پاچکے ہیں۔ اس طرح خروجِ نفسِ زکیہ کے بعد امام کم سے کم پانچ سال تک زندہ رہ چکے ہیں۔ اس بنا پر ہوسکتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنی آخری عمر میں سابق رائے میں تبدیلی کرکے خروج کے متعلق اپنا جدید مسلک یہ متعین کیا ہو کہ ’’خروج اور بغاوت حرام ہے نہ کہ جائز‘‘۔ اور اپنے پہلے مسلک سے امام نے رجوع کیا ہو۔ اور اس وقت سے امام اعظمؒ بھی دوسرے محدثین کی طرح اس بات کے قائل رہے ہوں کہ ’’خروج جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ اور اصلاح کے لیے خروج کے بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی کام لیاجائے گا‘‘۔ شاید اسی وجہ سے ملا علی قاریؒ نے فرمایا ہو: واما الخروج علیھم فحرم باجماع المسلمین وان کانوا فسقۃ ظالمین (مرقات)

اوپر کے مباحث سے جب یہ بات واضح ہوگئی ہے خروج کے مسئلہ میں امام اعظمؒ کا مذہب عدم جواز ہے، اور مسلمان باغیوں کا حکم بتصریح فقہاء قتل ہے جیسے سابق مکتوب میں فقہاء کے حوالے ذکر کیے جاچکے ہیں تو اہلِ موصل کے معاملے میں بھی میرے نزدیک امام سرخسیؒ اور شیخ ابن الہمامؒ کا بیان درست ہے، کہ یہ واقعہ مشرکین کے یرغمالوں سے متعلق تھا نہ کہ مسلمان باغیوں سے۔ کیونکہ مسلمان باغیوں کے بارے میں امام کا مذہب یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے گا نہ یہ کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے‘‘۔ اگرچہ الکردری کے بیان کے مطابق یہ واقعہ مسلمان باغیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔‘‘

جواب: عنایت نامہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ اب میرا نقطۂ نظر اچھی طرح آپ کے سامنے واضح ہوسکے گا۔ براہ کرم حسب ذیل امور پر غور فرمائیں:

میرے مقالے کا موضوع ہے اس خاص مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک۔ اور آپ استدلال میں پیش فرمارہے ہیں مذہب حنفی کے اقوال۔ آپ جیسے ذی علم اور فقیہ النفس بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہوسکتی کہ مسلکِ ابی حنیفہ اور مذہبِ حنفی ایک چیز نہیں ہیں۔ مسلک ابی حنیفہ کا اطلاق صرف امام اعظمؒ کے اپنے اقوال و افعال پر ہی ہوسکتا ہے۔ رہا مذہب حنفی تو اس میں امام صاحب کے علاوہ اصحاب ابی حنیفہ اور بعد کے مجتہدین فی المذہب بھی شامل ہیں، اور بہت سی ایسی چیزیں بھی مذہب حنفی قرار پائی ہیں جو امام اعظمؒ سے ہی نہیں، آپ کے اصحاب سے بھی ثابت نہیں ہیں، حتیٰ کہ ایسے مسائل بھی موجود ہیں جن میں مذہب حنفی کافتویٰ امام اعظمؒ کے قول کے خلاف ہے۔

ابوبکر جصاص، الموفق المکی اور ابن البزاز ؒ چاہے درجۂ اول کے فقیہ نہ ہوں، لیکن اس درجہ فقہ سے نابلد تو نہیں ہوسکتے کہ اپنے مذہب کے سب سے بڑے امام سے وہ اقوال اور افعال بلا تحقیق منسوب کردیتے جو ان کے تحقیق شدہ مسلک کے خلاف ہوتے۔ خصوصاً جصّاصؒ تو امام اعظمؒ سے بہت قریب زمانے میں گزرے ہیں۔ امام کی وفات اور ان کی پیدائش کے درمیان صرف ۱۵۵ سال کا فاصلہ ہے۔ اور بغداد میں وہ ان اکابر احناف سے وابستہ رہے ہیں جن کے درمیان مدرسۂ ابی حنیفہ کی روایات پوری طرح محفوظ تھیں۔ اگر امام صاحب کی طرف کوئی غلط روایت افواہ کے طور پر منسوب ہوتی تو وہ آخری شخص ہوتے جو اسے حاطب اللیل کی طرح احکام القرآن جیسی اہم فقہی کتاب میں نقل کر بیٹھتے اور اگر امام اعظمؒ کا اس مسلک سے رجوع ثابت ہوتا تب بھی وہ اس سے نہ بے خبر رہتے اور نہ اس کو چھپاتے۔

امام کے رجوع کا گمان اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو منصور ان کی جان کے درپے نہ رہتا بلکہ اس کے بعد تو اس کے اور امام کے درمیان صلح ہوجاتی۔ مزید براں کسی نے اشارۃً و کنایۃً بھی یہ نقل نہیں کیا کہ امام نے کبھی نفسِ زکیہ کے خروج میں حصہ لینے کو غلط تسلیم کیا ہو۔

میرے نزدیک یہ امر تو شبہ سے بالاتر ہے کہ مسئلہ زیر بحث میں امام اعظمؒ کا مسلک وہی تھا جو ان کے نقل شدہ اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ البتہ مذہب حنفی بعد میں وہی قرار پایا ہے جو آپ نقل فرما رہے ہیں۔ اور یہ مذہب قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کے دور میں جو رائے اصحاب حدیث کے ایک گروہ کی تھی (جسے امام اوزاعی کے حوالہ سے میں نے اپنے مضمون میں نقل بھی کیا ہے) دوسری صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہی رائے اہل سنت و الجماعت کے پورے گروہ میں مقبول ہوگئی اور اسی رائے کو متکلمین میں سے اشاعرہ نے (بمقابلۂ معتزلہ) اختیار کیا۔ اس رائے کی مقبولیت در حقیقت نصوصِ قطعیہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہائے کرام نے بیان کیا ہے۔ لیکن مجھے اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آئمہ جور کے خلاف خروج کے معاملہ میں پہلی صدی ہجری کے آئمہ و اکابر کی وہ رائے ہو جو بعد والوں نے قائم کی۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ۱۹۵۷ء کے اواخر میں جو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ لاہور میں ہوئی تھی اس میں انگلستان کی ایک مستشرقہ نے باقاعدہ یہ اعتراض کیا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اگر ایک دفعہ بگڑ جائے تو پھر اس کی تبدیلی کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ اس اعتراض کے حق میں اشاعرہ اور فقہائے اہل سنت کے اقوال پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ بگاڑ رونما ہوجانے کی صورت میں فقہاء کی ان تصریحات کے مطابق صرف انفرادی طور پر کلمہ حق تو بلند کیا جاسکتا ہے مگر کوئی اجتماعی سعی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب مسلک ابی حنیفہ کو پیش کرنے کے سوا نہ تھا ۔ اب اگر یہ بھی غلط ہو تو پھر اس اعتراض کا کوئی جواب ہمیں آپ بتائیں۔

قتال اہل البغی کے معاملے میں یہ امر تو مسلم ہے کہ اگر وہ مسلح ہو کر مقابلہ کریں تو ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا جاسکتا ہے اور ان کے برسر جنگ لوگوں کے مال بھی لوٹے جاسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس علاقے میں انہوں نے بغاوت کی ہو اس علاقے کی ساری آبادی مباح الدم والاموال ہوجاتی ہے اور ان کا قتل عام کیا جاسکتا ہے؟ اگر حکم فقہی کی تعبیر یہی ہو تو پھر یزید کی فوجوں نے واقعۂ حرہ کے موقع پر مدینہ طیبہ کی آبادی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ جائز ہونا چاہیے۔ اس پر صحابہ و تابعین اور بعد کے علماء و فقہاء نے جو شدید اعتراضات کیے ہیں ان کا آخر کیا جواز ہے؟

(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۴ء)