پاکستان کے اسلامی ریاست نہ بننے کی ذمہ داری کس پر ہے؟

سوال: ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اوراس کے بعد نوائے وقت میں جناب کے حوالہ سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہمالاؤں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکت خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوزا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائد اعظم کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان اورلیاقت علی خان کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔

ایک صریح جھوٹ

سوال: کراچی سے شائع ہونے والے ایک ادبی ماہنامہ ’’افکار‘‘ دسمبر ۱۹۷۶ء کے شمارہ میں ریاض صدیقی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’قائداعظم ایک عہد ساز شخصیت‘ شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی آخری سطور میں صاحبِ مضمون نے ’جماعت اسلامی اور قائداعظم‘ کے ذیلی عنوان سے لکھا ہے:

مسلم حکومتوں کے معاملہ میں جماعت اسلامی کا مسلک

سوال: انگلستان سے ایک صاحب نے مجھے لکھا ہے:

’’مختلف مسلمان حکومتوں، خصوصاً سعودی حکومت کے ساتھ اسلامی کارکنوں کے تعاون سے بہت کچھ نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس چال کے ذریعہ سے مسلم حکومتوں کے معاملہ میں اسلام کے موقف کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں الجھا دیا گیا ہے اسلامک کونسل آف یورپ نے اس کانفرنس میں اسلام کی بہت سی بنیادی تعلیمات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ بعض لوگ جو آپ کی تحریک سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں ان کی ان کانفرنس میں شرکت لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنے کی موجب ہوئی ہے کہ انہیں آپ کی تائید حاصل ہے، اور یہ چیز مسلمان حکومتوں، خصوصاً سعودی حکومت کی پالیسیوں کو سندِ جواز بہم پہنچاتی ہے۔ ہم پورے زور کے ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریک کے کارکنوں کو مسلم حکومتوں کی خدمت انجام دینے والی قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں اور پلیٹ فارموں سے الگ رکھنے کے لیے اپنا پورا اثر استعمال کریں‘‘۔

دو شبہات

سوال:’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ اصولاً صرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریہ کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے کر چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تل گیا تھا، مگر ترجمان القرآن میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غوروتامل کا فیصلہ کرنا پڑا۔ میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران و سرگرداں مسافر کی حیثیت سے، جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ مشارالیہ کے مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں۔

اسلامی نظام جماعت میں آزادی تحقیق

سوال: ’’تفہیمات‘‘ کا مضمون ’’مسلک اعتدال‘‘ جس میں صحابہ کرام اور محدثین کی باہمی ترجیحات کو نقل کیا گیا ہے اور اجتہاد مجتہد اور روایت محدث کو ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس مضمون سے حدیث کی اہمیت کم اور منکرین حدیث کے خیالات کو تقویت حاصل ہوتی ہے، یہ رائے نہایت درجہ ٹھنڈے دل سے غورو فکر کا نتیجہ ہے۔

اس قسم کے سوالات اگر آپ کے نزدیک بنیادی اہمیت نہیں رکھتے تو جماعت اسلامی کی ابتدائی منزل میں محدثین و فقہا اور روایت و درایت کے مسئلہ پر قلم اٹھانا مناسب نہیں تھا۔ اس مسئلہ کے چھیڑ دینے سے غلط فہمیاں پھیل نکلی ہیں۔ اب بہتر ہے کہ بروقت ان غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا جائے کیونکہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے والے خیالات جس لٹریچر میں موجود ہوں اسے پھیلانے میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں، حالانکہ نظم جماعت اسے ضروری قرار دیتا ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریرں مع تنقید اخبارات و رسائل میں شائع کردی جائیں۔

جزئیاتِ شرع اور مقتضیاتِ دین

سوال: “اجتماع میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت و تبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گذشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم و استقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت و جرات کے ساتھ ادا ہوتی رہیں۔

اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر کے بعض فقرے میرے بعض ہمدرد رفقا کے لیے باعث تکدر ثابت ہوئے اور دوسرے مقامات کے مخلص ارکان و ہمدردوں میں بھی بددلی پھیل گئی۔ عرض یہ ہے کہ منکرین خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم، تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے؟ کیا ان کے اعتراضات و شبہات حکمت و موعظۂ حسنہ اور حلم و بردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟ اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیت جذبات کا پتہ دے رہے تھے۔

سوال: حالیہ اجتماع دارالاسلام کے بعد میں نے زبانی بھی عرض کیا تھا اور اب بھی اقامت دین کے فریضہ کو فوق الفرائض بلکہ اصل الفرائض اور اسی راہ میں جدوجہد کرنے کو تقویٰ کی روح سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ “مظاہر تقویٰ” کی اہمیت کی نفی میں جو شدت آپ نے اپنی اختتامی تقریر میں برتی تھی وہ نا تربیت یافتہ اراکین جماعت میں “عدم اعتنا بالسنتہ” کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور میں دیانتہً عرض کرتا ہوں کہ اس کے مظاہر میں نے بعد از اجلاس ملاحظہ کیے۔ اس شدت کا نتیجہ بیرونی حلقوں میں اولاً تو یہ ہوگا کہ تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی بعض داعیین تحریک نے “استہزابالستنہ” کی ابتدا اسی طرح کی تھی کہ بعض مظاہر تقویٰ کو اہمیت دینے اور ان کا مطالبہ کرنے میں شدت اختیار کرنے کی مخالفت جوش و خروش سے کی۔ دوسرے یہ کہ شرارت پسند عناصر کو ہم خود گویا ایک ایسا ہوائی پستول فراہم کردیں گے جو چاہے درحقیقت گولی چلانے کا کام ہر گز نہ کرسکے مگر اس کے فائر کی نمایشی آواز سے حق کی طرف بڑھنے والوں کو بدکایا جاسکے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے معاملات میں عوام کے مبتلائے فتنہ ہوسکنے کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ بیت اللہ کی عمارت کی اصلاح کا پروگرام حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے محض قوم کی جہالت اور جدید العہد بالاسلام ہونے کے باعث ملتوی کردیا تھا اور پھر اتنی احتیاط برتی کہ کبھی کسی وعظ اور خطبے میں لوگوں کو اس کی طرف توجہ تک نہیں دلائی، بجز اس کے کہ درون خانہ حضرت عائشہ صدیقہؐ سے آپ نے اس کا تذکرہ ایک دفعہ کیا۔

ہمہ گیر ریاست میں تحریک اسلامی کا طریق کار

سوال:یہ بات تو اب مزید استدلال کی محتاج نہیں رہی کہ ایک مسلمان کے لئے بشرطیکہ وہ اسلام کا صحیح شعور حاصل کرچکا ہو، صرف ایک ہی چیز مقصد زندگی قرار پاسکتی ہے، اور وہ ہے حکومت الہیہ کا قیام۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے صرف وہی طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس کی فطرت سے عقلاً مناسبت رکھتا ہو۔ اور جو اس کے اصلی داعیوں نے عملاً اختیار کیا ہو۔ حکومت الہٰی کے نصب العین کے داعی انبیاء کرام ہیں۔ اس لئے طریق کار بھی وہی ہے جو انبیاء کا طریق کار ہو۔…

غلافِ کعبہ کی نمائش اور جلوس

سوال: حال ہی میں بیت اللہ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر و سعادت ہے۔ مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے، اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈ کے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ:

ایک مصالحانہ تجویز

سوال: پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کا ایک خاص طبقہ دستور اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جمات اسلامی اور علمائے کرام کی باہمی چپقلش افسوسناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کر کے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔ کیا اس معاملہ کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نامور علماء کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں، ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کر کے چند نامور علماء کے الفاظ لکھ دیے ہیں) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کر دے ان علماء کرام کی غیر جانبداری، علم و تقویٰ اور پرہیز گاری شک و شبہ سے بالا ہے (کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانبدار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں اور وہ بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں) اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقینا اضافہ ہوگا۔ اور اگر علمائے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہو سکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔

بے بنیاد اندیشے

سوال: حال ہی میں (لاہور کا ایک اخبار) کے ذریعہ علماء کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں ان تحریروں سے گمراہ نہیں ہو سکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقابلہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلماء پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کر لی جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے‘‘۔

  • 1
  • 2