ملازمین کے حقوق

سوال: یہاں کے ایک ادارے نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ ملازمین کے معاوضہ جات اور دیگر قواعد ملازمت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث اور کتب فقہ پر میری نظر ہے، اس بارے میں کوئی ضابطہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں کہ کتاب و سنت کی روشنی اور عہد خلافت راشدہ اور بعد کے سلاطین صالحین کا تعامل اس بارے میں واضح فرمائیں۔ چند حل طلب سوالات جو اس ضمن میں ہوسکتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

بیوی اور والدین کے حقوق

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض امور میں اس کو تحقیر بھی کر دیا ہے۔ مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ ان امور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

اللہ کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال: میں ایک سخت کشمکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میں جماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دور رہنے پر مجبور ہوں۔ والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر تجارتی کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط و تفریط سے بچ سکوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے توپھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں اور میری طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تواسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔