دلچسپ مین میخ

سوال: مہربانی فرما کر نہایت صاف اور سادہ الفاظ میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تحریر فرما کر مشکور فرمائیں، تاکہ ان معاملات میں ہماری غلط فہمی اور لاعلمی دور ہو جائے۔

سپاسنامے اور استقبال

سوال: ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو فاران کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے، شاید آپ کی نظر سے گزارا ہو۔ میرا خیال ہے کہ زیرِ بحث مسئلہ پر اگر آپ خود اظہارِ رائے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہو گا، اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاسنامے خود آپ کی رضامندی سے پیش ہو رہے ہیں تو آپ اس تمدنی، اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعویدار رہا ہو، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ اگر آپ سپاسنامہ کے اس پورے عمل کو جائز ثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آپ کے اصول کے مطابق، احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جائے اور کنویں کی مڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجائے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟

غلط الزامات

سوال: ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب آپ کے خلاف تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔ ان میں جو الزامات وہ آپ پر لگاتے ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ آپ نے اپنی کتاب ’’تفہیمات‘‘ میں سرقہ کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ظلم قرار دیا ہے۔

۲۔ آپ نے ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ قیامت کے بعد یہ زمین جنت بنا دی جائے گی، یعنی جنت آئندہ بننے والی ہے، اب کہیں موجود نہیں ہے، نہ پہلے سے بنی ہوئی ہے۔

۳۔ آپ نے ترجمان القرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، وہ اسی زمین پر تھی حالانکہ یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔

براہِ کرم ان الزامات کی مختصر توضیح فرما دیں تاکہ حقیقتِ حال معلوم ہو سکے۔

فتنہ پردازی کا مرضِ لاعلاج

سوال: رسائل و مسائل اوّل میں صفحہ۵۳ پر آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ ان الفاظ سے متباور یہی ہوتا ہے کہ آپ سرے سے دجال ہی کی نفی کر رہے ہیں۔ اگرچہ اسی کتاب کے دوسرے ہی صفحہ پر آپ نے توضیح کر دی ہے کہ جس چیز کو آپ نے افسانہ قرار دیا ہے وہ بجائے خود دجال کے ظہور کی خبر نہیں بلکہ یہ خیال ہے کہ وہ آج کہیں مقید ہے، لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ مقدم الذکر عبارت ہی میں ترمیم کر دیں، کیونکہ اس کے الفاظ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ناقابلِ توجیہ حوادثِ حیات

سوال: انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب و فساد کا پہلو تعمیر و اصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آ گئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم و خبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے، تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور الجھن اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔

خواب میں زیارتِ نبویؐ

سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریر فرما کر تشفی فرمائیں۔

حضورﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا۔ اور کماقال۔

اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟ کیا نبیﷺ کو جس شکل و شباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورﷺ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟ کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپ ہی کو دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟

گول مول جوابات

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلہ کا گول مول جواب دیتے ہیں، اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہو کر انکار کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں، کیونکہ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ ہمیشہ مسئلہ کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں۔ خدا کرے میرا یہ حسنِ ظن قائم رہے۔

مباہلہ و مناظرہ

سوال: میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں، مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودیؒ دعوتِ مباہلہ و مناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالانکہ نبیﷺ نے خود یہودسے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور انبیاء و سلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اورنہ ہی مناظرہ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض یا سنت نہیں ہے تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کر دیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

اعتراض کے پردے میں بہتان

سوال: رمضان ۱۳۷۵ھ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کر کے ان کے جواب دیے ہیں۔ اعتراض نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ اعتراض نہیں بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارۃً و کنایۃً بھی یہ بات نہیں لکھی‘‘۔ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔اے نے اپنی کتاب ’’مودودی مذہب حصہ اول‘‘ میں اس عبارت کے لیے ترجمان ربیع الثانی ۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں۔

بیوی اور والدین کے حقوق

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض امور میں اس کو تحقیر بھی کر دیا ہے۔ مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ ان امور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔