انشورنس کو حرمت سے پاک کرنے کی تدابیر

سوال: انشورنس کے بارے میں آپ کا یہ خیال درست ہے کہ اس میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ اس کے لیے طویل اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ میں نے اب تک اپنی انشورنس کمپنی میں لائف انشورنس کے کاروبار سے احتراز کیا ہے۔ لیکن اب غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی کے بیمے کی قباحتوں کو درج ذیل تدابیر سے رفع کیا جاسکتا ہے۔

غیر سودی معیشت میں حکومت کو قرض کی فراہمی کا مسئلہ

سوال: میں آج کل غیر سودی نظام بنک کاری پر کتاب لکھ رہا ہوں۔ اسی سلسلہ میں ایک باب میں حکومت کو قرض کی فراہمی کے مسئلہ پر لکھنا ہے۔ آج کل حکومت کو متعدد وجوہ سے جس وسیع پیمانہ پر قرض کی ضرورت ہوتی ہے اس کے پیش نظر صرف اخلاقی اپیل پر انحصار نہ کرکے اصحاب سرمایہ کو قرض دینے کے کچھ محرکات فراہم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ غیر سودی معیشت میں جو لوگ حکومت کو قرض کے طور پر سرمایہ فراہم کریں ان کو قرض دیے ہوئے سرمایہ پر بعض محاصل میں تخفیف، یا بعض محاصل سے استثناء کی رعایت دی جائے۔ مثلاً آمدنی کا جو حصہ بطور قرض حکومت کو دیا جائے اس پر انکم ٹیکس کی شرح رعایتی طور پر کم کر دی جائے۔ یہ رعایت حکومت کے لیے قرض کی فراہمی میں مددگار ہوگی۔

بینک میں رقم رکھوانے کی جائز صورت

سوال: بینک میں رقم جمع کرنے کے معاملے میں میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کراتا ہوں تو بینک اس پر سود دے گا۔ لیکن اگر کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرائی جائے تو اگرچہ اس پر مجھے سود نہیں ملے گا مگر بینک اس رقم کو سودی کاروبار میں استعمال کرے گا۔ گویا میری رقم پر بینک تو سود لے گا۔ اس کے بجائے میں یوں کیوں نہ کروں کہ سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کراؤں اور اس پر جو سود مجھے ملے اسے حاجت مندوں کی ضروریات پر صرف کروں؟ وہ سود بینک کیوں کھائے؟ کسی ضرورت مند کی ضرورت کیوں نہ پوری کردی جائے؟ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائی جائے۔

نظام کفرو فسق میں کسب معاش کی مشکل

سوال: آپ کی تحریروں کو دیکھنے کے بعد میں اپنے موجودہ معاش سے بیزار ہوں لیکن کافرانہ نظام حکومت و تمدن کے ماتحت کسب حلال تقریباً ناممکن التصور ہے۔ ملازمت، کاشت کاری اور تجارت سب پیشوں میں حرام داخل ہوگیا ہے۔ پھر ہمارے لیے کون سا راستہ ہے؟

رشوت وخیانت کو حلال کرنے کے بہانے

سوال: سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبرواکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، انہیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس لیے یہ حلال ہونا چاہئے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے اسے بھی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائز سمجھتے ہیں۔ میں اپنے حلقہ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔

رشوت وخیانت کے متعلق چند مزید مسائل

سوال: رشوت و خیانت کے متعلق ترجمان القرآن کے ایک گزشتہ پرچہ میں رسائل و مسائل کے زیر عنوان آپ نے جن مسائل پر بحث کی ہے انہیں کے متعلق چند مزید سوالات مجھے درپیش ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان کے مدلل جوابات سے میرے اور میرے بعض رفقاء کے شبہات کو دور فرما دیں گے۔

پیشہ وکالت اسلامی نقطہ نظر سے

سوال: میں نے حال ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ہے اور اس پیشہ میں خاصا کامیاب ہوا ہوں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک وکیل کو قوانین الہٰیہ کے برخلاف روزانہ قوانین انسانی کی بنا پر مقدمات لڑنے پڑتے ہیں۔ وہ اپنا پورا زور لگاکر اس چیز کو حق ثابت کرتا ہے جسے انسانی قوانین حق قرار دیتے ہیں خواہ خدائی قانون کی رو سے وہ حق ہو یا نہ ہو اور اسی طرح باطل اسے ثابت کرتا ہے جو ان قوانین کی رو سے باطل ہے خواہ قانون الہٰی کے تحت وہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ محتاط سے محتاط وکیل بھی عدالت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی معاً حق و باطل اور حقوق اور ذمہ داریوں کے اس معیارکو تسلیم کرتا ہے جس کو انسان کی خام کار عقل نے اپنی خواہشات نفس کے ماتحت مقرر کررکھا ہے۔ غرضیکہ ایک وکیل کفر کی اچھی خاصی نمائندگی کے فرائض انجام دیتا ہے، لیکن کوئی پیشہ بھی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جسے اختیار کرکے آدمی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس دہری مشکل کا حل کیا ہے؟ میں یہ سوال اس مسافر کی طرح پوری آمادگی عمل کے ساتھ کر رہا ہوں جو پابہ رکاب کھڑا ہو۔

کاسب حرام کے ساتھ معاشی تعلقات کے حدود

سوال:(۱) مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھر فاجرین میں بائع خمر، آکل ربوٰ، وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟

(۲) کاسب حرام سے روپیہ قرض لے کر اس سے تجارت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

(۳)کاسب حرام کے ہاں نوکر رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟

دارالکفر میں سود خواری

سوال: ایک متدیّن بزرگ جو ایک یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر بھی ہیں اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں
’’جو تاجر یا زمیندار گورنمنٹ کو ٹیکس یا لگان دے رہے ہیں، اگر وہ ڈاکخانہ یا امپریل بنک میں روپیہ جمع کرکے گورنمنٹ سے سود وصول کریں تو ان کو بقدر اپنے ادا کردہ ٹیکس و لگان کے گورنمنٹ سے سود لینا جائز ہے۔؟‘‘

سرکاری نرخ بندی پر چند سوالات

سوال: حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ پھر کیا موخرالذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعہ حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟ مثلاً مروت یا دباؤ سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محروم رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟ یا اس کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟