دارالکفر میں سود خواری

سوال: ایک متدیّن بزرگ جو ایک یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر بھی ہیں اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں
’’جو تاجر یا زمیندار گورنمنٹ کو ٹیکس یا لگان دے رہے ہیں، اگر وہ ڈاکخانہ یا امپریل بنک میں روپیہ جمع کرکے گورنمنٹ سے سود وصول کریں تو ان کو بقدر اپنے ادا کردہ ٹیکس و لگان کے گورنمنٹ سے سود لینا جائز ہے۔؟‘‘

ایک دوسرے مشہور و معروف عالم دین اس سے آگے قدم رکھ کر فرماتے ہیں:

’’قرآن و حدیث، اجماع، قیاس، الغرض کسی بھی شرعی دلیل سے حربی کے اموال کی عدم اباحت کا ثبوت کوئی صاحب پیش کرسکتے ہوں تو کریں…… افسوس کہ علمائے اسلام نے اس قیمتی نقطہ نظر پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کیا، ورنہ ادھر ڈیڑھ سو سال میں مسلمان جن معاشی دقتوں میں مبتلا ہوگئے غالباً یہ صورت حالات نہ ہوتی۔ ملک کے باشندوں کا ایک طبقہ سود لیتا رہا اور دوسرا طبقہ سود دیتا رہا، اس کی وجہ سے جو معاشی عدم توازن اس ملک میں پیدا ہوگیا ہے اس کی ذمہ دارری اسلام پر نہیں، بلکہ زیادہ تر علماء پر اس لیے ہے کہ ان کے معاشی نظام میں اس صورت کا علاج موجود تھا لیکن انہوں نے ایک جزو پر عمل کیا اور دوسرے کو ترک کردیا‘‘۔

علمائے کرام کی ان بحثوں نے ہم کو تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ سود سے اجتناب کی جس روش پر ہم اب تک قائم ہیں کہیں وہ غلط تو نہیں ہے۔ یہ تو عجیب معاملہ ہوگا کہ ایک طرف تو ہم آخرت ہی کے اجر کی امید پر دنیا میں نقصان اٹھائیں اور دوسری طرف آخرت میں جا کر ہم کو یہ جواب مل جائے کہ تمہارا سود سے اجتناب کسی شرعی حکم کے مطابق نہ تھا، لہٰذا تم کسی اجر کے مستحق نہیں ہو۔

جواب: سود کی حرمت قرآن اور حدیث کی قطعی نصوص سے بالتصریح ثابت ہے، فقہ کی کوئی اصطلاحی بحث ان نصوص کی ناسخ نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا آپ اطمینان رکھیں کہ علماء کے ان ارشادات کے باوجود آخرت میں آپ کا اجر محفوظ ہے۔

قانون کی پیچیدہ بحثوں سے قطع نظر کرکے اگر ہم ایک سیدھے سادھے مسلمان کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کو دیکھیں تو بداہۃً یہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام دین و اخلاق اور تمدن و تہذیب کے ان اصولوں کی علمبرداری کرنا ہے، جنہیں خدا کی کتاب اور رسولﷺ کی سنت میں حق کہا گیا ہے اور دنیا سے ان خیالات اور طریقوں کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے جنہیں قرآن اور سنت نے باطل ٹھہرایا ہے۔ جس سر زمین میں باطل کا غلبہ ہو اور احکام کفر جاری ہو رہے ہوں وہاں ہمارا کام باطل طریقوں کو اختیار کر لینا نہیں ہے بلکہ ہمارا اصلی منصب یہ ہے کہ ہم وہاں رہ کر قرآن کے قانون حیات کی تبلیغ کریں اور نظام کفر کی جگہ نظام اسلامی قائم کرنے کے لیے ساعی ہوں۔اب غور کیجیے کہ اگر ہم خود سود کھائیں گے تو کفار کی سود خواری کے خلاف آواز کس منہ سے اٹھائیں گے؟ کفار اگر ناجائز طریقوں سے ہمارے اموال لے رہے ہیں یا حکومت کفر ہمارے اموال سے اگر بلا استحقاق (یعنی خدا کی سند پر مبنی حق کے بغیر) کوئی حصہ لے اڑتی ہے تو ہمارے لیے یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ ہم ان اموال کو واپس لینے کے لیے ویسی ہی ناجائز کاروائیاں کرنے لگیں اور کسب حرام کو اپنا حق واپس لینے کا ذریعہ بنائیں؟اس طرح تو سود خواری کے ساتھ شراب نوشی، مزامیر سازی، فحش فلم بنانا، عصمت فروشی، کاروبار رقص و وسرود، بت تراشی، فحش نگاری، سٹہ بازی، جوئے بازی اور سارے ہی حرام کاموں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر یہ فرمائے کہ ہم میں اور کفار میں وہ کون سا اخلاقی فرق باقی رہ جاتا ہے جس کے بل پر ہم دارالکفر کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کر سکیں؟

اصل میں مسئلےکی صورت یہ ہے کہ حکومت کفر کے آئین کی رو سے آپ پر یہ سب حرام ہیں۔اگر آپ شریعت اسلام کے پیرو کار ہیں تو آپ حکومت کفر کے آئین کی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے اور اگر آپ ایک طرف دنیا کو شریعت اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فائدوں کے لیے یا کچھ نقصانات سے بچنے کے لیے حرام خوری کی ان گنجائشوں سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو آئین کفر نے دی ہیں مگر آئین اسلام نے جن کی سخت مذمت کی ہے تو چاہے فقیہ شہر آپ کے اس طرز عمل کے جواز کا فتویٰ بھی دے دے، لیکن عام انسانی رائے اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ پھر بھی وہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اخلاقی اثر قبول کرے گی۔

حقیقتاً اس طرز فکر کو فقہ اسلامی میں استعمال کرنا ہی ہے کہ مسلمانوں کو فلاں تکلیف اور فلاں نقصان جو حکومت کفر کے تحت رہتے ہوئے پہنچ رہا ہے اسے روکنے کے لیے نظام باطل ہی کے اندر کچھ شرعی وسائل پیدا کیے جائیں۔ یہ طریق فکر مسلمانوں کو بدلنے کے بجائے اسلام کو بدلتا ہے، یعنی تجدید دین کی جگہ تجدد کا دروازہ کھولتا ہے جو نظام دینی کے لیے حد درجہ تباہ کن ہے، اور افسوس یہ ہے کہ غلبہ کفر کے زمانے میں فتویٰ نویسی کچھ اسی راہ پر چلتی رہی ہے۔ اس طریقہ نے مسلمانوں کو نظام باطل کے اندر راضی اور مطمئن زندگی بسر کرنے کا خوگر بنا دیا ہے، حالانکہ یہ دین حق کے عین منشا ہی کے خلاف ہے۔ ہم اس طرز فکر کو ہر گز گوارا نہیں کر سکتے، خواہ کیسے ہی بڑے بڑے علماء اس کے حامی ہوں۔ نظام باطل کے تحت مسلمانوں کے لیے تکلیف اور نقصان کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے؟ اس تکلیف اور نقصان کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان اس نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہد کریں، نہ یہ کہ کفر کے زیر سایہ کسی قدر سہولت سے جینے کے لیے شریعت کو موافق حال بنائیں۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان۶۵ھ۔ اگست۴۶ء)