بینک میں رقم رکھوانے کی جائز صورت

سوال: بینک میں رقم جمع کرنے کے معاملے میں میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کراتا ہوں تو بینک اس پر سود دے گا۔ لیکن اگر کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرائی جائے تو اگرچہ اس پر مجھے سود نہیں ملے گا مگر بینک اس رقم کو سودی کاروبار میں استعمال کرے گا۔ گویا میری رقم پر بینک تو سود لے گا۔ اس کے بجائے میں یوں کیوں نہ کروں کہ سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کراؤں اور اس پر جو سود مجھے ملے اسے حاجت مندوں کی ضروریات پر صرف کروں؟ وہ سود بینک کیوں کھائے؟ کسی ضرورت مند کی ضرورت کیوں نہ پوری کردی جائے؟ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائی جائے۔

جواب: روپیہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھا جائے تو اس پر کوئی سود نہیں لگتا اور بینک کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم اپنے کاروبار میں استعمال کرنا خلاف قاعدہ ہے۔ اب اگر وہ اسے سودی کاروبار میں استعمال کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے کیونکہ ہم تو اس کے پاس حفاظت کے لیے اپنا روپیہ رکھتے ہیں نہ کہ سودی کاروبار کے لیے۔ اس کے برعکس اگر آپ اپنا روپیہ کسی ایسی مد میں جمع کراتے ہیں جس پر آپ کو سود ملتا ہے اور مقصد آپ کا یہ ہوتا ہے کہ اس سود کو غریبوں کی مدد کے لیے استعمال کریں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے ایک شخص لوگوں کی جیبیں اس غرض کے لیے کاٹے کہ اس سے جو روپیہ ملے گا اس کو وہ غریبوں کے لیے استعمال کرے گا۔

(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۷۶ء)