کوّے کی حلّت اور حرمت اور بعض دوسرے مسائل

سوال:(۱) کیا کوّے کا گوشت حلال ہے؟ نیز یہ تحریر فرمائیں کہ کون کون سے جانور اور پرندے حرام یا حلال ہیں؟ نیز دُرِّ مختار کا بعض لوگ حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں کوّے کے گوشت کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

(۲) حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران بعض لوگوں نے مکانوں کی چھتوں پر خوف خدا سے اذانیں دیں۔ ایسا کرنا کہاں تک جائز ہے؟ کیا یہ فعل مستحب ہے یا گناہ ہے یا خلاف شرع ہے؟

(۳) ننگے سر نماز پڑھنا کیسا ہے، جب کہ ٹوپی یا کپڑا موجود ہو؟ کیا کوئی حدیث ایسی ہے جس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز ملتا ہے؟

جواب: (۱) جن جانوروں کی حرمت کے متعلق قرآن پاک یا حدیث صحیح میں تصریح ہے، ان پر تو امت میں اتفاق ہے۔ لیکن جن جانوروں کے بارے میں تصریح نہیں ہے، بلکہ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی حلت و حرمت میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔کوّے کے گوشت کے متعلق دُرّالمختار میں لکھا ہے:

’’ولا یحل … الغراب الابقع الذی یاکل الجیف لانہ ملحق بالخبائث قالہ المصنف (ای صاحب تنویر الابصار) ثم قال والخبیث ماتستخبثہ الطباعُ السلیمۃ‘‘۔ اور حلال نہیں ہے … وہ کوّا جس کے رنگ میں سیاہی اور سفیدی ملی جلی ہو اور جو مردار کھاتا ہو، کیونکہ وہ خبائث میں شامل ہے۔ یہ بات مصنف (یعنی صاحب تنویر الابصار) نے لکھی ہے، پھر کہا ہے کہ خبیث وہ ہے جسے سلیم الطبع لوگ گندا اور ناپاک سمجھتے ہیں۔

علامہ شامی نے ردّالمحتار میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اما الغراب الابقع (الذی فیہ بیاض و سوادٌ) والا سود فھو انواع ثلاثۃ، نوع یلتقط الحبٌ ولا یا کل الجیف ولیس بمکروہ، ونوع لایا کل الا الجیف فانہ مکروہ، وھو الّذی سمّاہ المصنف الابقع۔ ونوع یخلط، یاکل الحب مرۃ والجیف اخری، ولم یذکرہ فی الکتاب، وھو غیر مکروہ عندہ (ای ابی حنیفہ)ومکروہ عند ابی یوسف‘‘۔ ملے جلے رنگ یا سیاہ رنگ کے کوّوں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دانے چگتا ہے اور مردار نہیں کھاتا۔ وہ مکروہ نہیں ہے۔ دوسرا وہ جو مردار ہی کھاتا ہے۔ وہ مکروہ ہے اور مصنف نے اسی کو ملے جلے رنگ کا کوّا کہا ہے۔ تیسرا وہ جو کبھی مردار کھاتا ہے اور کبھی دانے چگتا ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اور امام ابو یوسف کے نزدیک مکروہ ہے۔ (ردالمحتار، جلد ۵،ص ۲۶۶)

اسی کتاب میں مندرجہ بالا بحث کو آپ دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ کون کون سے پرندے حلال ہیں۔

۲۔ سیلاب یا کثرت بارش یا کسی اور آفت کے موقع پر اذانیں دینا مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے، لیکن میرے علم کی حد تک یہ طریقہ کسی سند پر مبنی نہیں ہے، بلکہ غالباً لوگوں نے اسے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لیے پکارنے کی ایک صورت سمجھ کر اختیار کیا ہے۔ اگر لوگ اسے مشروع سمجھ کر کریں تو غلط ہے، اور اگر محض اللہ سے فریاد کرنے اور اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی نیت سے کریں تو مباح ہے۔

۳۔نماز میں سر ڈھانکنے کا کوئی حکم، یا ننگے سر نماز پڑھنے کی کوئی نہی میرے علم میں نہیں ہے۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ عمامہ یا ٹوپی پہنے ہوئے ہی نماز پڑھتے تھے۔ خُذُوْا زِیُنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ کے حکم کا تقاضا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ نماز اچھا لباس پہن کر پڑھی جائے، اور ٹوپی یا عمامہ بھی اس میں داخل ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص ننگے سرنماز پڑھے تو اس کی نمازہوجائے گی۔

(ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۷۶ء)