قصاص اور دیت

سوال: قصاص اور دیت کے بارے میں چند استفسارات تحریر خدمت ہیں۔ ان کے جوابات ارسال فرمائیں۔

(الف) مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایک وارث دیت لے کر یا بغیر دیت لیے اگر اپنا حق قاتل کو معاف کردے تو کیا سزائے موت معاف ہوسکتی ہے؟ اس میں اقلیت و اکثریت کا کوئی لحاظ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً تین بیٹوں میں سے ایک نے قصاص معاف کردیا، باقی دو قصاص لینے پر مصر ہیں تو قاضی کو کیا شکل اختیار کرنی ہوگی؟

قتل خطا اور اس کے احکام

سوال: ایک پنساری نے غلطی سے ایک خریدار کو غلط دوا دے دی جس سے خریدار خود بھی ہلاک ہوگیا اور دو معصوم بچے (جن کو خریدار نے وہی دوا بے ضرر سمجھ کر دے دی تھی) بھی ضائع ہوئے۔ یہ غلطی پنساری سے بالکل نادانستہ ہوئی۔ خون بہا اور خدا کے ہاں معافی کی اب کیا سبیل ہے؟ نیز یہ کہ خون بہا معاف کرنے کا کون مجاز ہے؟

اسلامی ریاست میں ذمی رعایا

سوال: ’’میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔سال گزشتہ صوبہ کی ہندو سبھا کا پروپیگنڈہ سیکریٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول و سوئم، اسلام کا نظریہ سیاسی، اسلامی حکومت کسی طرح قائم ہوتی ہے، سلامتی کا راستہ وغیرہ دیکھی ہیں،جن کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بدل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔ جس حکومت الہٰیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند امور دریافت طلب ہیں۔ خط و کتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔

قتل مرتد کے مسئلے پر ایک اعتراض

سوال: (۱) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً (سورہ نساء 137) کی تشریح کے سلسلے میں ایک مرزائی دوست نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنی کتاب ’’مرتد کی سزا اسلامی قانون میں‘‘ میں لکھا ہے کہ جو ایک دفعہ اسلام لا کر اس سے پھر جائے، اسلام نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے، لیکن قرآن مجید میں دوسری دفعہ ایمان لانا مندرجہ ذیل آیت سے ثابت ہے۔ براہ کرم یہ اشکال رفع فرمائیں۔

(۲) الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سورۃ نور 26) کا مفہوم کیا ہے؟

قرآن پاک میں چوری کی سزا

سوال: اس خط کے ہمراہ ایک مضمون ’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ اگر ممکن ہو تو آپ اسے اپنے ماہنامہ میں شائع فرمادیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ مختلف لوگ اس پر اظہار خیال کریں اور اکثریت اگر میرے ساتھ متفق ہو تو پھر زنا کے جرم کے بارے میں بھی اسی طرح کی تشریح کی جائے۔

قرآن میں زنا کی سزا

سوال: آپ نے میرے مضمون ’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہار خیال فرمایا ہے، اس کے لیے شکریہ۔ اب اسی قسم کا ایک اور مضمون ’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ میری استدعا ہے کہ آپ اس پر بھی اظہار خیال فرمائیں۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو جناب کی دونوں تنقیدوں کا یک جا جواب دوں گا۔

یہاں سرسری طور پر اس قدر گزارش کرنا ضروری ہے کہ آپ نے میری اس تشریح کے بارے میں نکتہ چینی نہیں فرمائی کہ قرآن نے جو سزا بیان کی ہے،وہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے، اور کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے اور نہ اس بارے میں کچھ فرمایا کہ دنیا میں کسی جرم کی سزا مجرم کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھتی ہے؟

تدوینِ قانون میں اکثریت کے مسلک کا لحاظ

سوال: آپ نے غالباً کہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہو، قوانین انہی کے فیصلوں کے مطابق بنائے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاً پاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لاء کی گنجائش رکھی جائے گی۔ اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو آئمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کی بجائے محض کتاب و سنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی، انہی کو قانونی جواز حاصل ہوگا؟ پہلی صورت میں قوانین کا ماخذ کتاب و سنت کی بجائے فقہائے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔ لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔ دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب و سنت ہی ٹھہرے گا۔ لیکن اسکی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر و نظر اور مسلکی عصبیت و حمیت دخیل نہ ہوگی۔ اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہائے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔ صرف چند الجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں، ان کا حل مطلوب ہے۔

کیا آیت رجم قرآن کی آیت تھی؟

سوال: آپ نے رسائل و مسائل حصہ دوم میں ’’نسخ قرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آیت رجم توریت کی ہے، قرآن کی نہیں‘‘۔ میں حیران ہوں کہ آپ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا ہے جو صاف تصریحات کے خلاف ہے۔ سلف سے خلف تک تمام علمائے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے:

نظریہ نسخ آیت مع بقائے حکم پر استدراک:

رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۵ء کے عنوان ’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت آیت رجم اور نظریہ ’’نسخ آیت مع بقائے حکم‘‘ کے متعلق جو جواب تحریر کیا گیا تھا، اسے دیکھ کر ایک صاحب نے ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا تھا، جو ان کے حسب ارشاد شائع کیا جا رہا ہے:

کفارۂ جرم اور مسئلہ کفائت

سوال:(۱) کیا اگر کسی گناہ (مثلاً زنا) کی شرعی سزا ایک شخص کو اسلامی حکومت کی جانب سے مل جائے تو وہ آخرت میں اس گناہ کی سزا سے بری ہوجائے گا یا کہ نہیں؟

(۲) کیا حدیث یا قرآن مجید میں کوئی اصولی ہدایت اس امر کی موجود ہے کہ ہر شخص اپنی قوم (ذات) میں ہی شادی کرے۔ واضح رہے کہ میں کفائت کا اس معنی میں تو قائل ہوں کہ فریقین میں مناسبت ہونی چاہیے۔ غیر ضروری معیار کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔

  • 1
  • 2