قرآن پاک میں چوری کی سزا

سوال: اس خط کے ہمراہ ایک مضمون ’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ اگر ممکن ہو تو آپ اسے اپنے ماہنامہ میں شائع فرمادیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ مختلف لوگ اس پر اظہار خیال کریں اور اکثریت اگر میرے ساتھ متفق ہو تو پھر زنا کے جرم کے بارے میں بھی اسی طرح کی تشریح کی جائے۔

مجلس دستور ساز پاکستان کے سامنے زنا اور چوری، دو فوج داری جرم ایسے ہیں جن کی شرعی سزا موجودہ رجحانات کے خلاف ہے۔ میرے مضمون کا منشا یہ ہے کہ مجلس مذکورہ کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ اپنے قانون کو ایک طرف قرآن مجید کی سزاؤں کے مطابق بنا سکے اور دوسری طرف لوگوں کے خیالات کا لحاظ بھی رکھا جاسکے۔ جہاں تک ہوسکے کسی جرم میں قید کی سزا نہ دی جائے اور بید، جرمانہ اور جلاوطنی وغیرہ سزاؤں کو رواج دیا جائے تو یہ عین قرآن مجید کی منشا کے مطابق ہوگا۔

نوٹ: جناب رسائل کے محولا بالا مضمون کے چند ضروری اقتباس یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ یہ اقتباس اخبار پیغام صلح، مورخہ یکم نومبر ۵۰ ء کے تراشے سے لیے گئے ہیں جو خط کے ساتھ موصول ہوا تھا۔

’’اس آیت (سورہ مائدہ۔ ۳۸۔ ۳۹) میں چوری کے جرم کی سزا بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ السارق کے ساتھ السارقۃ کے لفظ سے تما م مفسرین نے یہی سمجھا ہے کہ اس سے مراد چور عورت ہے‘‘ … ’’سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کبھی نوع انسان کے لیے کسی انعام یا سزا کا ذکر کرتا ہے تو شاذو نادر حالتوں کے سوا صرف مذکر کے لیے کرتا ہے او رمونث خود بخود اس میں شامل سمجھی جاتی ہے۔‘‘ ’’حقیقت یہ ہے کہ یہاں سارقہ سے مراد چور کا معین و مددگار ہے۔ دنیا میں دو قسم کے آدمی ہیں۔ ایک وہ جو کام کر رہے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کے مددگار ہیں۔ مرد اور عورت میں سے بالعموم مرد کام کرنے والا ہوتا ہے اور عورت اس کی مددگار ہوتی ہے، اس لیے مددگاروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مونث کا صیغہ استعمال کیا ہے، قرآن مجید نے بالعموم جہاں کہیں کسی کام یا نتیجہ میں مرد کے ساتھ عورت کا صیغہ استعمال کیا ہے وہاں ہمیشہ اس سے مراد اس کام میں معین و مددگار لی ہے، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، فعل زنا میں مرد کا پہلا مددگار زانیہ ہوتی ہے، اور دوسرا مددگار وہ دلال ہوتے ہیں جو بیچ میں پیغام رساں بن کر اسے وقوع میں لاتے ہیں اور تکمیل کراتے ہیں۔ اسی لیے زانیہ کے لفظ میں وہ سب شامل ہیں۔ اسی طرح چوری کا کام بالعموم انجام نہیں پاسکتا، جب تک تاڑ بازی کرنے والے، چور کے پناہ دہندہ اور چوری کے مال کے چھپانے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سارقہ کے لفظ میں ان سب کو شامل کیا ہے، اور سب کے لیے ایک ہی سزا یعنی ہاتھ کاٹنا مقرر کی ہے‘‘… یہ بات کہ یہاں سارقہ سے چور کے مددگار مراد ہیں، اس سے بھی ظاہر ہے کہ سارق اور سارقہ کے درمیان واؤ کا لفظ لگایا گیا ہے۔ حالاں کہ اگر مراد چور عورت ہوتی تو واؤ کی بجائے او کا لفظ ہوتا‘‘ … دوسری بات جو یہاں قابل غور ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوروں کو سچی توبہ کرنے کی مہلت دے کر سزا سے معاف فرمایا ہے، حالاں کہ اسلامی فقیہوں کی تعزیرات میں معافی کا کوئی ذکر نہیں۔‘‘ (اس موقع پر توبہ کے بارے میں چند احادیث نقل کی گئی ہیں)۔ ’’ پس میری رائے میں قرآن مجید کی رو سے چور کو سچی توبہ کرنے کا ایک دفعہ موقع ملنا چاہیے۔ اگر باوجود توبہ کے وہ پھر چوری کرے تو اس کو ضرور سزا ملنی چاہیے‘‘ … ’’قرآن جب ایک طرف چور کی معافی کا ذکر کرتا ہے اور دوسری طرف ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے تو اس کا منشا اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ چوری کے لیے کم سے کم سزا یعنی معافی سے لے کر زیادہ سے زیادہ یعنی ہاتھ کاٹنا بتاتا ہے۔ اس واسطے یہ کہنا کہ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کے سوا کچھ نہیں، میرے نزدیک اصول قرآن کی غلط تعبیر کرنا ہے‘‘ … ’’قرآن کی رو سے قاضی کو چور اور اس کے مددگاروں کے بارے میں پورا اختیار حاصل ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے۔ وہ ان سے توبہ کراکے بالکل کورا بھی چھوڑ سکتا ہے اور بید، جرمانہ، قید کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ انتہائی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس تشریح کے ساتھ اس چیخ وپکار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ قرآن کی سزائیں وحشیانہ سزائیں ہیں جو موجودہ متمدن دنیا میں قابل قبول نہیں۔‘‘

جواب: آپ نے چور کی سزا کے بارے میں جو استدلال فرمایا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ سارقہ اور زانیہ سے مراد سرقہ اور زنا میں مدد کرنے والے لینا محض ایک تکلف ہے جس کے لیے عربی میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس طرح قرآنی الفاظ میں ایک زبردستی ایک معنی پیدا کرنے کو میں جائز نہیں سمجھتا۔ رہی یہ بات کہ سارق کے ساتھ سارقہ کی تصریح کرنے کی اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی؟ تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کے معاملے میں سزا کی سختی کا تصور لوگوں کو ویسے ہی اچھا خاصا پریشان کرتا ہے، لیکن مرد کی بہ نسبت عورت کے حق میں یہ خیال اور بھی زیادہ پریشان کن ہوسکتا ہے۔ اس لیے صراحت کی گئی کہ مرد ہی نہیں عورت بھی چور ہو تو اس کو بھی ضرور یہ سزا دی جائے۔ یہی مصلحت زانی کے ساتھ زانیہ کی تصریح میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے۔

واؤ عطف سے جو معنی آپ نے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان میں واؤ عطف محض معیت ہی کے معنی میں نہیں آتا کہ آپ لازماً اس کے معنی یہ کریں کہ معطوف اور مطعوف علیہ دونوں پر ایک ساتھ حکم جاری ہو۔ ’’واؤ‘‘ مطلق جمع کے لیے بھی آتا ہے اور اس سے مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ جو حکم بیان کیا جارہا ہے، اس میں معطوف اور معطوف علیہ دونوں یکساں ہیں۔ اس صورت میں اس کا فائدہ قریب قریب وہی ہوتاہے جو ’’ا و‘‘ کا ہے یعنی خواہ معطوف ہو یا معطوف علیہ، دونوں میں سے جو بھی ہو، اسکا حکم وہی ہوگا جو بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے تو آیت فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ کا مطلب آپ یہ لیتے ہیں کہ دو دو یا تین تین یا چار چار، نہ کہ یہ سب ایک ساتھ۔ لہٰذا السارق والسارقۃ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چور خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں پر یہی قطع ید کا حکم جاری ہوگا۔

چور کی توبہ کے معاملے میں آپ نے جو بحث فرمائی ہے، اس میں آپ یہ بھول گئے ہیں کہ آخر کون سا چور ہوگا جسے اگر سزا سے بچنے کی امید ہو تو وہ توبہ نہ کرلے گا؟ اور آپ کس جگہ یہ حد مقرر کریں گے کہ اتنی بار توبہ کرلینے پر بھی جو شخص چوری سے باز نہ آئے گا تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟

آپ کا یہ سوال بھی صحیح نہیں ہے کہ چوری اور زنا میں مدد کرنے والوں کے لیے قرآن مجید میں کیا سزا مقرر کی گئی ہے؟ ایک یہی معاملہ کیا، قرآن مجید میں توقانون تعزیرات کی دفعات کے بارے میں بھی سکوت کیا گیا ہے۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہم یا تو ہر جرم کی سزا قرآن مجید سے نکالیں یا پھر قرآن کے ذکر کردہ جرائم اور سزاؤں کے سوا کسی جرم پر سزا نہ دیں۔ قرآن مجید تو صرف حدود مقرر کرتا ہے۔ باقی رہا تعزیرات کا معاملہ، تو شریعت میں یہ مسلم ہے کہ اس باب میں حسب ضرورت احکام مدون کئے جاسکتے ہیں۔

(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۷۰ھ۔ دسمبر ۱۹۵۰ء)