عالمانہ جاہلیت

سوال: ’’ایک عالم دین اور صاحب دل بزرگ خطبات اور سیاسی کشمکش (جلد ۳) پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملازمتیں غیر اللہ کی اطاعت کی تعریف میں نہیں آتی۔ یہ تو اپنی اور اپنے اہل ملک کی خدمت ہے۔ یہ حد درجہ غلط طریق کار ہے کہ خزائن ارض پر ہندو اور سکھ بطور حاکم مسلط ہوں اور مسلمان شودر کی حیثیت میں صرف مطالبہ گزار بن کر رہ جائیں، اور ملازمت کریں بھی تو اس کی آمدنی کو حرام سمجھ کر کھایا کریں۔ میں حیران ہوں کہ ان کو کیا جواب دوں۔‘‘

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

سوال: ہماری بستی میں ایک صاحب ہیں جو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسرے احکام اسلامی کے پابند ہیں، گناہ کبیرہ سے پرہیز کرنے والے ہیں، مگر ان کا کچھ عجیب حال ہے مثلاً وہ والدین کی خدمت تو سر انجام دیتے ہیں اور ان کے کام میں بھی مدد کرتے ہیں، مگر ان کی املاک سے کچھ نہیں لیتے، حتٰی کہ ان کا کھانا تک نہیں کھاتے، محض اس بنا پرکہ ان کے والد کاروبار کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔اسی طرح دوسرےتمام عزیز و رشتہ دار جن کی کمائیوں میں انہیں حرام آمدنی کے شامل ہونے کا شبہ ہوتا ہے، ان کے ہاں بھی کھانے پینے سے وہ پرہیز کرتے ہیں۔

امانت، قرض، صلہ رحمی

سوال:(۱) امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہئیں؟

(۲) قرض حسنہ دینے اور لینے میں کن امور کا لحاظ ضروری ہے؟

(۳) صلہ رحمی کا مفہوم کیا ہے اور شریعت میں اس کی اہمیت کس حد تک ہے؟

افسرانِ بالا کے آنے پر مستعدی کی نمائش

سوال: میں ایک ورکشاپ میں ملازم ہوں، مگر ہمیں کبھی کبھی باہر دوروں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ ان دنوں ہمیں کام بہت کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہم اپنے اوقات کے اکثر حصے یونہی بیکار بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا کوئی آفیسر یہاں سے گزرنے والا ہے یا گزر رہا ہے تو فوراً ہی ہم اِدھر اُدھر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیتے ہیں تاکہ آفیسر کو معلوم ہو جائے کہ ہم کچھ کر رہے ہیں۔ اور جب وہ گزر جاتا ہے تو پھر ہم آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض مواقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کہ آفیسر کو ہمارے متعلق کیا خیال گزرے گا۔ اگرچہ میں اس قسم کا مظاہرہ بہت کم کرتا ہوں۔ جب بھی اس قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے تو طبیعت بہت پریشان ہوتی ہے۔ بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز بھی مجھے خدا کی عدالت میں مجرم بنا کر کھڑا کر دے۔ براہِ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطہ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دَم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پورے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدہ میں پڑا رہا ہوں۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہو جاتے ہیں؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پاؤں میں کڑے پہنا کر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہیں کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم اس غم و افسوس کے لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔