مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطہ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دَم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پورے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدہ میں پڑا رہا ہوں۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہو جاتے ہیں؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پاؤں میں کڑے پہنا کر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہیں کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم اس غم و افسوس کے لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ کے صاحبزادے کی وفات کا حال معلوم کر کے بڑا افسوس ہوا اور اس سے زیادہ افسوس یہ سُن کر ہوا کہ اس سے پہلے بھی دو بچوں کا صدمہ آپ کو پہنچ چکا ہے۔ اولاد کے یہ پے درپے غم آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے لیے جیسے ناقابل برداشت ہوں گے اس کا مجھے خوب اندازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو صبر عطا فرمائے اور سکنیت بخشے۔

آپ کے خط سے مجھے محسوس ہوا کہ دل پر پے در پے چوٹیں کھانے کی وجہ سے آپ غیر معمولی طور پر متاثر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اس حالت میں نصیحت کرنا زخموں کو ہرا کر دیتا ہے، اور مناسب یہی ہوا کرتا ہے کہ رنج و غم کا طوفانی دور ختم ہو جائے۔ مگر مجھے خوف ہے کہ اس دور میں کہیں آپ کے عقائد صالحہ پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ اس لیے مجبوراً کہتا ہوں کہ آفات اور مصائب اور آلام کا خواہ کیسا ہی ہجوم ہو، مومن کو اپنے ایمان اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق پر آنچ نہ آنے دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہم کو ہر طرح کے حالات میں ڈال کر آزماتا ہے۔ غم بھی آتے ہیں اور خوشیاں بھی آتی ہیں۔ مصیبتیں بھی پڑتی ہیں اور راحتیں بھی میسر آتی ہیں۔ نقصان بھی ہوتے ہیں اور فائدے بھی پہنچتے ہیں۔ یہ سب آزمائشیں ہیں اور ان سب سے ہم کو بخیریت گزرنا چاہیے اس سے بڑھ کر ہماری کوئی بدقسمتی نہیں ہو سکتی کہ ہم مصیبتوں کی آزمائش سے گزرتے ہوئے ایسے مضطرب ہو جائیں کہ اپنا ایمان اور اعتقاد بھی خراب کر بیٹھیں۔ کیونکہ اس طرح تو ہم دنیا اور دین دونوں ہی کے ٹوٹے میں پڑ جائیں گے۔ آپ کو جن صدموں سے دوچار ہونا پڑا ہے وہ واقعی دل ہلا دینے والے ہیں۔ لیکن اس حالت میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کیجیے اور کوئی مشرکانہ خیال یا شرک کی طرف کوئی میلان، یا اللہ سے کوئی شکایت دل میں نہ آنے دیجیے۔ ہم اور جو کچھ بھی ہمارا ہے، سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ ملکیت بھی اسی کی ہے اور سارے اختیارات بھی اسی کے۔ ہمارا اس پر کوئی حق یا زور نہیں ہے۔ جو کچھ چاہے عطا کرے اور جو کچھ چاہے چھین لے اور جس حال میں چاہے ہم کو رکھے۔ ہم اس پر اس شرط سے ایمان نہیں لائے ہیں کہ وہ ہماری تمنائیں پوری ہی کرتا رہے اور ہم کو کبھی کسی غم یا تکلیف سے دوچار نہ کرے۔ یہ شانِ بندگی نہیں ہے کہ اللہ سے مایوس ہو کر ہم دوسرے آستانوں کی طرف رجوع کرنے لگیں۔ دوسرے کسی آستانے پر سرے سے ہے ہی کچھ نہیں۔ وہاں سے بھی اگر بظاہر کچھ ملتا ہے تو خدا ہی کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ وہاں سے مانگ کر ہم جو کچھ پا سکتے ہیں وہ ایمان کھو کر ہی پا سکتے ہیں۔ اور بہت سے بدقسمت ایسے ہیں جو وہاں ایمان بھی کھوتے ہیں اور مراد بھی نہیں پاتے۔ اس لیے آپ ایسے کسی خیال کو اپنے دل میں ہر گز نہ آنے دیں۔ اور صبر و ثبات کے ساتھ اللہ ہی کا دامن تھامے رہیں۔ خواہ غم نصیب ہو یا خوشی۔

جادو اور آسیب اور جعفر وغیرہ میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔ آپ اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ اسی سے پناہ طلب کرتے رہیں۔ امید ہے کہ آخرکار اس کا فضل آپ کے شامل حال ہوگا۔ اور کوئی بَلا آپ کو یا آپ کی اولاد کو لاحق نہ ہوگی۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الآخرہ ۱۳۷۷ھ۔ جنوری ۱۹۵۸ء)