حضرت ابراہیم ؑ کا دور تفکر

سوال: تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۵۲، سورہ انعام آیت ۷۴ کا تفسیری نوٹ نمبر ۵٠ یہ ہے :

’’یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جارہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمدﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر ایک مالک کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردیا ہے، اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کرچکے ہیں۔‘‘

مسئلہ عصمت انبیاء

سوال: آپ نے تفہیمات حصہ دوم میں قصہ داؤد علیہ السلام پر کلام کرتے ہوئے عصمت انبیاء کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی بنا پر علماء کا ایک گروہ مدتوں سے آپ کو عصمت انبیاء کا منکر قرار دے رہا ہے۔ اب مولانا مفتی محمد یوسف صاحب نے اپنی تازہ کتاب میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرکے ان کے تمام اعتراضات کو رد کردیا ہے۔ مگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک دینی مدرسے کے شیخ الحدیث صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پھر اس الزام کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ (ان عبارات میں) ایسی توجیہات اور محتملات بھی موجود ہیں جن کی بنا پر مولانا مودودی صاحب ایک صحیح مسلمان اور سچے عاشق و محبت رسول کی نگاہ میں گستاخی کا مرتکب اور مذہبی پابندی سے آزاد نظر آئے گا‘‘۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے دو اجزاء

سوال:سوال نمبر ۱ کے بارے میں آپ کے مختصر جواب سے اندازہ ہوا کہ میرے سوال کا مرکزی نکتہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشن سے متعلق ہے جناب کی تائید سے محروم رہا اور آپ نے اپنے جواب میں اپنے اسی موقف کا اعادہ فرمایا جو اس سے قبل آپ تفہیم القرآن میں پیش کرچکے ہیں۔ آپ کے نقطۂ نظر کو قبول کرنے میں جو اشکال ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور آلِ فرعون کے ایمان سے مایوس ہونے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت نہیں فرمائی تھی بلکہ آغاز نبوت ہی میں فرعون کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ’’ارسالِ بنی اسرائیل‘‘ کا مطالبہ بھی پیش فرما دیا تھا۔ اس کی آخر کیا مصلحت تھی؟ کیا صرف ایمان کی دعوت کافی نہیں تھی؟ اس اشکال کا ایک ہی حل میری سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ، دعوت ایمان کا بدل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر فرعون ایمان نہ لائے تب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرجائیں۔ بلکہ یہ ایک مستقل مطالبہ تھا جسے اگر فرعون ایمان لے آتا تب بھی پورا کرایا جاتا۔ قرآن کا انداز بیان بھی اسی کی تائید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے متعلق چند سوالات

سوال: سیاسی کشمکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں ’’پہلا جزیہ ہے کہ انسان کو بالعموم اللہ کی حاکمیت و اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنانے کی دعوت دی جائے، دعوت عام ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہئے۔‘‘ کیا دعوت توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑ نے کیا غیر متعلق چیز نہ تھی؟ پھر آپ لکھتے ہیں: ’’دوسرا جزیہ ہے کہ جتھا ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان بوجھ…

بعثت سے پہلے انبیاء کا تفکر

سوال: آپ نے تفہیم القرآن میں سورۃ انعام کے رکوع ۹ سے تعلق رکھنے والے ایک توضیحی نوٹ میں لکھا ہے کہ: ’’وہ(حضرت ابراہیم ؑ) ھٰذا ربی کہنے سے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے۔ کیونکہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی منزلوں پر غورو فکر کے لیے ٹھہرتا ہے، اصل اعتبار ان کا نہیں بلکہ اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر نبوت وہبی ہوتی تو حضرت ابراہیم ؑ کو عام انسانوں کی طرح خدا کے الہٰ ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے…

عصمت انبیاء

سوال: یہ امرمسلّم ہے کہ نبی معصوم ہوتے ہیں، مگر آدم علیہ السلام کے متعلق قرآن کے الفاظ صریحاً ثابت کررہے ہیں کہ آپ نے گناہ کیا اور حکم عدولی کی ہے، جیسے وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الْظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ:۳۵) کی آیت ظاہر کررہی ہے۔ اس سلسلے میں اپنی تحقیق کے نتائج سے مستفید فرمائیں۔ جواب: نبی کے معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرشتوں کی طرح اس سے بھی خطا کا امکان سلب کر لیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ نبی اول تو دانستہ نافرمانی نہیں کرتا اور اگر اس سے…

علم غیب رسل

سوال: ایک عالم دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالم غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اللہ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًاO اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاO لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ(الجن:26-27-28) یعنی’’وہ غیب کا عالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلق نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جس کو اس نے چن لیا ہو، پھر وہ اس کے آگے اور…

چند مزیداعتراضات:

ایک صاحب نے ایک طویل مکتوب کی شکل میں مدیر ’’ترجمان‘‘ کی بعض تحریروں پر اعتراضات وارد کیے ہیں۔ مدیر ’’ترجمان‘‘ نے ان کا مفصل جواب دیا ہے، افادہ عام کی خاطر سوالات و جوابات کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

راقم عریضہ کافی عرصے سے آپ کی تصنیفات کا یک جہتی سے مطالعہ کر رہا ہے۔ چند شبہات ایسے واقع ہوئے کہ باوجود کافی حسن ظن کے دل میں بے حد خلجان پیدا کر رہے ہیں۔ عمائدین جماعت سے بالمشافہ کئی مرتبہ گفتگو ہوئی، لیکن بجائے ازالہ، اضافہ ہوتا رہا۔ انہی مخلصین کے مشورے سے یہ طے پایا کہ براہ راست جناب سے استفادہ کیا جائے، لہٰذا جناب کو تکلیف دی جاتی ہے کہ مسائل مندرجہ ذیل کا تشفی جواب تحریر فرما کر ممنون فرمائیں۔ اگر مناسب خیال فرمائیں تو ترجمان میں شائع فرما دیں، تاکہ فائدہ عام ہو جائے۔

فرعون موسیٰ علیہ السلام ایک تھا یا دو؟

سوال: میں تفسیر القرآن کے سلسلے میں اپنا ایک شبہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ترجمان جنوری ۱۹۶۱ء میں سورہ قصص کی تفسیر کرتے ہوئے جناب نے میرے خیال میں اسلاف مفسرین کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بالمقابل ایک کی بجائے دو فرعون قرار دیے ہیں، حالاں کہ قرآن مجید کے متعلقہ مقامات کا مطالعہ کرنے سے فرعون سے مراد ایک ہی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے، یہ وہی فرعون ہے جو انکار دعوت کے بعد غرق ہوا۔ اسی طرح فرعون کی بیوی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پرورش کرنا بھی قرآن میں مذکور ہے اور پھر انہی خاتون کے اسلام لانے پر ان کا فرعون کے ہاتھوں ستایا جانا بھی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے فرعون سے نجات پانے کے لیے دعا مانگی تھی۔

  • 1
  • 2