حضرت ابراہیم ؑ کا دور تفکر

سوال: تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۵۲، سورۂ انعام آیت ۷۴ کا تفسیری نوٹ نمبر ۵٠ یہ ہے :

’’یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جارہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمدﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر ایک مالک کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردیا ہے، اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کرچکے ہیں۔‘‘

اس اقتباس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سلسلہ کلام ، وحی سے نوازے جانے کے بعد دعوت، اور محاجّۂ قوم سے متعلق ہے۔ نبوت سے پہلے کے دور تفکر کا بیان مقصود نہیں ہے جیسا کہ ’’اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں۔پھر آیت میں دعوت ابراہیمی کا ذکر ہے جو ظاہر ہے نبوت کے بعد دی گئی ہے، کوئی قرینہ دورِ تفکر کا موجود نہیں ہے۔ اور پھر آیت ۷۵ کے نوٹ نمبر۵۲ کے آخر کے جملے بتاتے ہیں کہ نبوت کے بعد تبلیغ کا حال بیان ہو رہا ہے، یعنی ’’ حضرت ابراہیم ؑ توحید کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے‘‘ والا جملہ۔ پھر آپﷺ کی معراج کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ اسی طرح دوسرے انبیا کو بھی نظام کائنات کا مشاہدہ کریا گیا اور ثبوت میں حضرت ابراہیم ؑ کی معراج کے لیے یہی آیت نمبر۷۵ پیش کی ہے اور معلوم ہے کہ معراج نبوت کے بعد ہوتی ہے، نبوت سے پہلے نظام کائنات کا مشاہدہ کرانے کے لیے’’خدائی انتظام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اب اس کے بعد آتی ہے آیت ۷۶ جو ’’ف‘‘ سے شروع ہوتی ہے ۔ اسے بھی آپ نے دور تفکر سے متعلق قرار دیا ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ یہ آیت دور تفکر سے متعلق کس طرح ہوسکتی ہے مگر سمجھ میں نہ آیا۔ براہ کرم اس خلجان کو دور فرمائیں۔ نیز وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ جملۂ معلَّلہ ہے جس پر ’’واؤ‘‘ آیا ہے۔ لازم ہے کہ اس کا معطوف علیہ بھی جملۂ معلَّلہ ہو، اور آپ نے جو ترجمہ فرمایا ہے اس سے بات کسی دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کذالک میں ذلک کا مشارٌ الیہ کیا ہے؟ لازم ہے کہ اوپر اس کا ذکر آچکا ہو۔

جواب: آپ نے سورۂ انعام کے جس مقام کے متعلق استفسار فرمایا ہے، یہ قرآن کے مشکل ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کے اشکالات کو رفع کرنے کے لیے مفسرین نے جو صورتیں اختیار کی ہیں وہ اس سے بہت زیادہ الجھنیں پیدا کرنے والی ہیں جو آپ نے میری اختیار کردہ صورت میں محسوس فرمائی ہیں۔ میں نے اپنی حد تک زیادہ سے زیادہ اس مقام کو صاف کرنے کی جو کوشش کی ہے، اگرچہ وہ بھی الجھنوں سے بالکل خالی نہیں ہے گو میرا خیال ہے کہ اس میں کم سے کم ممکن الجھنیں ہیں اور ایسی نہیں جو رفع نہ ہوسکیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ قصہ نبوت سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ اگر پہلے کا ہے تو تین سوالات سامنے آتے ہیں (۱)کیا رات کا طاری ہونا، تارے کا طلوع ہونا، پھر چاند کا برآمد ہونا، اور پھر سورج کا نکل آنا، پہلی مرتبہ اسی روز حضرت ابراہیم ؑ کے سامنے واقع ہوا؟ اس سے پہلے کبھی اس کی نوبت نہ آئی تھی؟ (۲) تارے، چاند اور سورج کو باری باری دیکھ کر ھٰذَا رَبِّیْ کہنا کیا شرک نہیں ہے؟ اگر چہ ہر ایک کے زوال کے بعد اس کی ربوبیت سے آپ نے انکار فرمادیا، مگر کچھ وقت تو ایسا گزرا جس میں یہ حالت شرک معاذ اللہ آپ پر طاری رہی۔ (۳) کیا مختلف چیزوں کو رب قرار دیتے اور ان کا انکار کرتے ہوئے آخر کار فَطَرَالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْض کے رب واحد ہونے تک پہنچنے میں کھلا ہوا ارتقاء نہیں پایا جاتا؟ بالفاظ دیگر اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ایک شخص شرک کی درمیانی منازل سے گزرتا ہوا توحید کی منزل پر پہنچا ہے، اور وہاں پہنچ جانے کے بعد اس نے قوم کے سامنے شرک سے برأ ت کا اعلان کیا ہے؟

اور اگر یہ قصہ نبوت کے بعد کا ہے تو اوپر کے تینوں سوالات اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صورت واقعہ تھی کیا؟ کیا واقعہ اس طرح پیش آیا تھا کہ ایک روز رات شروع ہونے سے لے کر دوسرے روز سورج کے غروب ہونے تک پورا معاملہ تنہائی میں پیش آتا رہا اور پھر آپ نے باہر نکل کر قوم کے سامنے شرک سے برأت اور فَطَرَالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْض کی طرف رخ کرلینے کا اعلان فرمایا؟ یا یہ کوئی مناظرہ تھا جس میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی قوم کے لوگ ایک شب و روز مسلسل مشغول رہے۔ مغرب کے بعد مناظرہ شروع ہوا۔ تارے کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ نے قوم کے سامنے کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا میں ڈوبنے والوں کو تو پسند نہیں کرتا۔ پھر چاند نکلا اور انہوں نے کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر اس کے غروب ہونے تک قوم بیٹھی رہی اور جب وہ غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہوں میں سے ہوتا‘‘۔ پھر سورج نکلا اور حضرت ابراہیم ؑ نے اعلان کیا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ ان سب سے بڑا ہے۔ پھر ساری قوم دن بھر بیٹھی رہی یہاں تک کہ مغرب کا وقت آگیا، اور جونہی کہ سورج غروب ہوا، حضرت ابراہیمؑ کے اس اعلان پر مناظرہ کا خاتمہ ہوگیا کہ ’’اے قوم، میں تمہارے شرک سے بری ہوں‘‘۔ ان دونوں میں سے جو صورت بھی آپ اختیار کریں، اس کے اشکالات اتنے ظاہر ہیں کہ بیان کی حاجت نہیں ۔

ان مشکلات کو نگاہ میں رکھ کر میری ان تشریحات کو جو میں نے آیات ۷۴ تا ۷۸ کے حواشی میں کی ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔ میرے نزدیک ترتیب کلام یہ ہے کہ عقیدۂ شرک کے خلاف اور توحید الٰہ کے حق میں جو تعلیم نبیﷺ کفار کے سامنے پیش فرما رہے تھے اس کی تائید میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آیت ۷۴ ان کی پیغمبرانہ زندگی کی دعوت کے بیان پر مشتمل ہے۔ پھر آیت ۷۵ تا ۷۷ اور آیت ۷۸ کا ابتدائی حصہ نبوت سے قبل کے تفکر کا نقشہ پیش کرتا ہے اور یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْءٌ سے فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ تک پھر دعوتِ نبوت کا بیان ہے۔ بیچ میں قبل نبوت کے تفکر کا ذکر میرے نزدیک جس غرض کے لیے کیا گیا ہے وہ میں نے حاشیہ نمبر ۵۱ اور ۵۳ میں بیان کردی ہے۔

معراج کے سلسلہ میں اس قصے کا حوالہ دینے سے بلاشبہ وہ الجھن پیش آتی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اس مقام کی مشکلات کو حل کرتے وقت اگر آپ اپنے ذہن کو ایک ضمنی بحث کے اشارات سے خالی کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ضمنی بحثوں میں جو اشارات کہیں آتے ہیں وہ سرسری نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس وقت لکھنے والے کا ذہن اس خاص موضوع پر مرتکز ہوتا ہے جس کے متعلق وہ بحث کررہا ہوتا ہے اور دوسرے امور سے اپنی بحث میں وہ سرسری طور پر تعرض کرتا ہے۔ یہ تعرض دراصل کسی تحقیقی بحث کی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ کسی مسئلے پر تحقیقی بحث کرتے وقت آدمی کے سامنے جو گوشے آتے ہیں وہ سرسری تعرض کے وقت سامنے نہیں ہوتے۔

وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ کے ’’واؤ‘‘ سے آپ کا یہ استدلال کہ اس کا معطوف علیہ بھی لازماً جملۂ معلَّلہ ہونا چاہیے، صحیح نہیں ہے۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جملۂ معلَّلہ عطف کے ساتھ آیا ہے مگر معطوف علیہ جملۂ معلَّلہ نہیں ہے مثلاً وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء (آل عمران: ۱۴۰۔۱۴۱)۔ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحَّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ (آل عمران: ۱۵۴)

کَذٰلِکَ کا مشارٌ الیہ اوپر کہیں مذکور نہیں ہے۔ وہ پس منظر میں پایا جاتا ہے جس کی طرف میں نے حاشیہ ۵۱ میں اشارہ کیا ہے۔ اس طرح کَذَالِکَ کے استعمال کی مثالیں بھی قرآن میں بکثرت ملتی ہیں۔ آپ وہ سب آیات جمع کریں جن میں کَذٰلِکَ استعمال ہوا ہے، آپ دیکھیں گے کہ اکثر کا مشارٌ الیہ غیر مذکور ہے اور پس منظر یا ماحول میں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کَذٰلِکَ ہی سے کلام کا آغاز کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ شوریٰ کی پہلی آیت میں۔

(ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۵ء)