درایت حدیث

سوال: آپ نے سورۂ ص کی تفسیر میں حضرت سلیمانؑ کے متعلق روایت ابو ہریرہؓ کی سند کو درست قرار دیا ہے مگر اس کے مضمون کو صریح عقل کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ آپ کے مخالفین اس چیز کو آپ کے انکار سنت پر بطور دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ آپ عقل کی آڑ لے کر صحیح احادیث کا انکار کر دیتے ہیں۔ آپ اپنی اس رائے کو بدل دیں یا پھر اس پر کوئی نقلی دلیل آپ کے پاس ہو تو تحریر فرمائیں۔ اگر آئمہ اسلاف میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں۔

اگر کسی امام نے کسی حدیث کی سند کو درست تسلیم کرکے اس کے مضمون کو صرف خلاف عقل ہونے کی بنا پر مسترد کیا ہو تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں۔

مکرر عرض ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت سلیمانؑ ایک رات میں نوے بیویوں کے پاس گئے تو اس سے کونسی شرعی قباحت لازم آتی ہے۔ کیا آپ بھی جدید مغرب زدہ طبقہ سے مرعوب تو نہیں ہو رہے؟

جواب: براہ کرم اسی حاشیے کو پھر بغور پڑھ لیں جس پر آپ نے اظہار رائے کیا ہے۔ اسی میں اس امر کی دلیل موجود ہے کہ صحت سند کے باوجود اس حدیث کا مضمون کیوں ناقابل قبول ہے اور اسی میں یہ بات بھی میں نے بیان کردی ہے کہ اس امر کا قوی احتمال موجود ہے کہ غالباً حضورﷺ نے یہودیوں کی خرافات کا ذکر کیا ہوگا اور سامع کو یا بعد کے کسی راوی کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ یہ بات حضورﷺ خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔

رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا آئمہ سلف میں سے بھی کسی نے کسی حدیث کی سند کے صحیح ہونے کے باوجود اس کے مضمون کو قبول نہیں کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ زادالمعاد میں علامہ ابن قیم حضرت عائشہؓ اور حضرت عبد اللہؓ بن عباس کی روایت کردہ حدیث ’’من عشق فعف فمات فھو شھید‘‘ وفی روایۃ ’’من عشق وکتم وعف وصبر غفراللہ لہ وادخلہ الجنۃ‘‘ پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لو کان اسناد ھٰذا الحدیث کالشمس کان غلطا ووھماً۔ ’’اگر اس حدیث کی سند آفتاب کی طرح روشن ہوتی تب بھی یہ غلط اور وہم ہوتی‘‘۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا مضمون صحیح نہیں ہے اور یہ زبان بھی نبی ﷺ کی نہیں معلوم ہوتی

(زادالمعاد، ج ۳۔ص ۲۰۶۔۲۰۷)

الاستیعاب میں علامہ ابن عبد البر ایک روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ان حدیث ابن عمرو وھم وغلط انہ لایصح معناہ وان کان اسناد صحیحاً۔ ابن عمرو کی حدیث وہم ہے اور غلط ہے، اس کا مضمون صحیح نہیں ہے اگرچہ اس کی سند صحیح ہے‘‘۔

یہ بات کچھ بعید از عقل و امکان نہیں ہے کہ ایک شخص نے ایک بات واقعی نبیﷺ سے سنی ہو مگر اس کو پوری طرح نہ سمجھا ہو، یا موقع و محل پر نگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو غلط فہمی لاحق ہوگئی ہو۔ بخاری و مسلم ہی میں یہ واقعہ موجود ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ ارشاد نقل فرماتے تھے کہ ان المیّتَ یُعذَّب ببکاء اھلہٖ۔ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے پیٹنے سے عذاب ہوتا ہے‘‘۔ یہ بات حضرت عائشہؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا اللہ ابن عمرؓ کو معاف فرمائے، وہ جھوٹ نہیں بولتے، مگر انہیں بھول ہوگئی یا وہ سمجھنے میں غلطی کرگئے۔ بات دراصل یہ تھی کہ ایک یہودی عورت کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ حضورﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آپؐ نے فرمایا یہ یہاں اس پر رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر میں عذاب بھگت رہی ہے۔

اسی لیے حدیث کی سند دیکھنے کے ساتھ اس کے مضمون پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ محض سند کی صحت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ حدیث کا مضمون لازماً جوں کا توں قبول کرلیا جائے خواہ اس میں علانیہ کوئی قباحت نظر آتی ہو۔

آپ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ ایک رات میں نوے بیویوں کے پاس گئے تو اس سے کونسی شرعی قباحت لازم آتی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس میں شرعی قباحت نہیں بلکہ عقلی قباحت ہے اور عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں نے تو حساب لگا کر بتادیا ہے کہ ۹۰ نہیں ۶۰ بیویاں ہی اگر مان لی جائیں تو لازم آتا ہے کہ دس گھنٹوں تک مسلسل ہر دس منٹ میں ایک بیوی کے پاس حضرت سلیمانؑ جاتے اور اس سے مباشرت کرکے فارغ ہوتے چلے گئے۔ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ ایک انسان دس گھنٹوں تک مسلسل ہر دس منٹ پر مباشرت سے فارغ ہوتا رہے اور فوراً وہ دوسری مباشرت کے لیے تیار ہوجائے؟ اور بالفرض اگر حضرت سلیمانؑ کی یہ حالت تھی بھی تو کیا بیویاں ایسی تیار بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک بیوی سے فارغ ہوتے ہی حضرت دوسری بیوی کے پاس جاتے ہی فوراً مباشرت میں مشغول ہوجاتے رہے؟ اسی طرح کی باتوں کو آپ ماننا چاہیں تو بخوشی مانتے رہیں، مگر یاد رکھیے کہ روایات پر ایسا ہی غلط اصرار فتنہء انکار حدیث کو ہوا دے رہا ہے۔

(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۵ء)