کیا حرام مہینوں کی حرمت کا حکم اب بھی باقی ہے؟

سوال: قرآن مجید میں الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ میں قتال سے منع کیا گیا ہے لیکن شاہ ولی اللہ اور مولانا ثناء اللہ پانی پتی (صاحب تفسیر مظہری) متاخرین میں، اور عطا اور امام بیضاوی متقدین میں، بس یہی ملے جنہوں نے آیت کے حکم کو باقی رکھا ہے۔ ان کے علاوہ صاحب بدائع و صنائع، زمخشری، جصاص، ابن عربی مالکی اور دوسرے مفسرین اور فقہاء نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ کتاب الام میں امام شافعی کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے جب کہ ان کے فقہی اصول (مذکورہ بیضاوی) کی رو سے اس آیت کو منسوخ نہ سمجھنا چاہیے۔

مجھے جناب سے یہ دریافت کرنا ہے کہ تفہیم القرآن کا مصنف اس مسئلے میں کیا رائے رکھتا ہے۔ تفہیم القرآن کی خاموشی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں۔ اس کے بعد درج ذیل باتیں مزید توضیح طلب ہیں:

۱۔ کیا اس حکم کو اسلامی قوانین جنگ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو دوسرے قوانین کو حاصل ہے؟

۲۔ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ میں قتال کی ممانعت کا تعلق صرف اہل عرب سے ہے یا دنیا کی ہر اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حکم کو پیش نظر رکھے؟

۳۔ تفسیروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ میں قتال سے اس لیے منع کیا گیا کہ خود عربوں میں بھی یہی رسم باقی تھی اور وہ ان محترم مہینوں کا خیال کرتے تھے۔ اگر دنیا کی تمام اسلامی حکومتوں کو اس حکم کا مخاطب سمجھا جائے تو اس کی علت عربوں کی مخصوص رسم کے علاوہ کچھ اور بھی ہونا چاہیے وہ کیا ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا نہیں؟

مجھے جناب کے مشاغل میں دخل اندازی پر ندامت ہے لیکن امید ہے کہ جناب اس خلش کو (خصوصاً دوسرے نکتے سے متعلق) دور فرمائیں گے۔

جواب: الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ کی حقیقت یہ ہے کہ نبیﷺ کی بعثت سے پہلے صدہا برس سے عرب میں طوائف الملوکی، بدنظمی اور بد امنی برپا تھی۔ قبائل میں آئے دن لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ راستے غیر محفوظ تھے۔ کوئی شخص اپنے قبیلے کی حدود سے نکل کر اپنے آپ کو محفوظ نہ پاتا تھا۔ بلکہ کوئی قبیلہ خود اپنے حدود میں بھی کسی طاقت ور قبیلے کا چھاپہ اچانک پڑجانے سے مامون نہ تھا۔ ان حالات میں کب، کس طریقے سے اللہ کی یہ رحمت عرب قوم پر نازل ہوئی کہ سال میں چار مہینے حرام قرار دے دیے گئے تاکہ ان میں جنگ اور قتل و غارت گری بند رہے اور لوگ اطمینان سے حج اور عمرہ ادا کرسکیں۔ یہ بات کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکی ہے کہ ان چار مہینوں کو حرام قرار دینے کا یہ قاعدہ کس نے بنایا، کب بنایا، اور کس طرح تمام عرب قبائل نے اسے تسلیم کرلیا۔ بہرحال اسلام سے پہلے صدیوں سے یہ قاعدہ عرب میں رائج تھا اور ہر سال چار مہینے کے لیے امن میسر آجانا اس بد نصیب قوم کے لیے اللہ کا بہت بڑا فضل تھا۔

اسلام جب آیا تو عہد جاہلیت کی تمام اچھی چیزوں کی طرح اس قاعدے کی بھی توثیق کی گئی، کیونکہ اس کی بدولت کم از کم چار مہینے خوں ریزی رکی رہتی تھی۔ اور حج اور عمرے کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا، اور مزید برآں ان مہینوں کا احترام اس بات کی علامت بھی تھا کہ جاہلیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اہل عرب میں کچھ خوف خدا باقی تھا۔ پھر جب نبیﷺ نے ہجرت فرمائی اور مسلمانوں سے کفار عرب کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس وقت بھی ان چار مہینوں کی حرمت کا حکم باقی رکھا گیا ، تا کہ کم از کم چار ہی مہینے مسلمانوں کو امن میسر آسکے۔ مگر جب تمام عرب مسلمان ہوگئے تو یہ حکم آپ سے آپ منسوخ ہوگیا۔ کیونکہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجانے کے بعد تو ان پر دوسرا اور عظیم تر حکم یعنی قتل مسلم بغیر حق کی حرمت کا دائمی حکم عائد ہوگیا۔ اب الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ کی حرمت کا حکم باقی رہنے کے معنی یہ ہوتے کہ اہل عرب صرف چار مہینے تو جنگ سے پرہیز کریں، باقی ایام میں وہ لڑ سکتے ہیں۔

اس حکم کو جزیرۃ العرب کے لیے، اور اس کے بھی صرف آغاز اسلام کے دور تک کے لیے مخصوص ماننے کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے مسلمان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی لڑائیاں جائز طور پر صرف جزیرے سے باہر کے کفار کے ساتھ ہی ہوسکتی تھیں اور ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے دور سے لے کر آج تک کبھی الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ کی حرمت کا سوال کسی عالم نے نہیں اٹھایا۔ ظاہر ہے کہ کفار تو جنگ کی ابتدا کرنے میں الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ کا لحاظ کر ہی نہ سکتے تھے۔ لیکن خود مسلمانوں نے بھی کبھی کسی کافر قوم پر حملہ کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ کسی حرام مہینے میں جنگ نہ چھڑے، اور میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ کسی فقیہ نے کبھی اس پر اعتراض کیا ہو۔

(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۵ء)