متعہ کی بحث:

سوال: جناب نے سورہ مومنون کی تفسیر کرتے ہوئے متعہ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر چند صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کر کے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب حضرات اضطراری صورت میں متعہ کے قائل تھے۔ دیگر تقریباً اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے حلت متعہ سے رجوع کر لیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ حضرت ابن عباس ؓ کا رجوع آپ کی نظر سے کیوں مخفی رہا ۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کرام ؓ اور تابعین کا حرمت متعہ پر کامل اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے بھی متعہ کو حرام مانا ہے۔ لیکن اضطرار کی ایک فرضی اور خیالی صورت تحریر فرما کر اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنی رائے پر نظر ثانی کریں ہے ۔ یہ اہل سنت کا متفقہ مسئلہ ہے۔

تعدد ازواج اور لونڈیاں

سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء 3:4)

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟

تعدد ازواج پر پابندی

سوال: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعدد مردوں سے کم ہو تو کیا حکومت اس بنا پر تعدد ازواج پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟ اس سوال کی ضرورت میں نے اس لیے محسوس کی ہے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی ہے وہاں ہنگامی صورت حال پیش نظر تھی۔ اس زمانے میں سالہا سال کے مسلسل جہاد کے بعد بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں اور بچے بے آسرا اور یتیم رہ گئے تھے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اجازت دی گئی تھی تا کہ بیواؤں اور یتیم بچوں کو سوسائٹی میں جذب کیا جاسکے اور ان کی کفالت کی شائستہ صورت پیدا ہوسکے۔