کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل:

سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟ اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیا ہے؟

جواب: قرآن مجید میں کنیز کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’وہ عورت جو زور بازو سے حاصل ہو‘‘ اور چوں کہ قرآن مجید زور بازو کے استعمال کو صرف قتال فی سبیل اللہ تک محدود رکھتا ہے اس لیے قرآن مجید کی تعریف کی رو سے کنیز صرف وہ عورت ہے جو راہ خدا کی جنگ میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔

یہ تعریف اور ایسی عورت کے حلال ہونے کی دلیل اس آیت میں ہم کو ملتی ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ … وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء 24:4۔23)

’’حرام کی گئیں تمہارے لیے تمہاری مائیں… اور وہ عورتیں جو شادی شدہ ہوں ما سوا ان عورتوں کے جن کے مالک ہوئے تمہارے سیدھے ہاتھ‘‘۔

سیدھا ہاتھ عربی میں قدرت، غلبہ و قہر اور زور بازو کے مفہو م میں بولا جاتا ہے۔ یہ بجائے خود کنیز کی مذکورہ بالا تعریف کے حق میں کافی دلیل ہے۔ اس پر مزید دلیل یہ ہے کہ وہ شادی شدہ عورت جس کو اس آیت میں حرمت کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، بہر حال وہ عورت تو نہیں ہو سکتی جس کا نکاح دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو حُرِّمَتْ عَلَیْکُم کے تحت آتی ہیں۔ اس لیے لامحالہ اِلَّامَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دارالحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔

رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھر اس کے بعد فرمایا:

أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (النساء 24:4)

’’اور حلال کیا گیا تمہارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو، قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے‘‘۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔

اس معنی پر یہ آیات بھی دلالت کرتی ہیں:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ( 1 ) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ( 2 ) … وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ( 5 ) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ( 6 )(المومنون23:6۔1)

’’فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع برتتے ہیں … اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے، کیوں کہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں‘‘۔

اس آیت میں اہل ایمان کے لیے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے ما ملکت ایمانھم ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر ما ملکت ایمانھم بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسر فضول ٹھہرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بنا پر تمتع جائز ہے۔

(ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)