کیا کافر عملِ صالح پر اجر کا مستحق ہے؟

سوال: گذارش ہے کہ اس بندۂ عاجز کے ایک مخلص دوست جو دینی خیال کے آدمی ہیں، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کوئی نیک عمل کرے، مثلاً مظلوم کی حمایت، غریب کی امداد، مسافر کی خدمت، کسی بیمار کی تیمار داری، تو وہ اپنے رب کے ہاں ضرور اجر پائے گا۔ آخرت کی اجارہ داری مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں۔ اللہ ربّ العٰلمین ہے صرف مسلمانوں کا خدا نہیں۔ ان کا گمان ہے کہ ہر مذہب کا پیرو مثلاً عیسائی، ہندو، بُدھ وغیرہ، اگر خالص نیت سے نیکی کرے، یعنی ریا کاری مقصود نہ ہو تو وہ آخرت میں جزا پائے گا۔ میں ان سے متفق نہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا حوالہ دیتا ہوں کہ ایمان لانا بھی قبولیت ِ عمل کے واسطے شرط ہے۔ مثلاً سورۂ نحل، ۹۷۔ سورۂ طٰحٰہ، ۱۱۲۔ سورۂ انبیاء، ۹۴۔ مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ میں نے ان سے عرض کیا تمام علماء اس بات پر متفق ہیں۔ انہوں نے جواب دیا علماء عموماً انتہا پسند ہیں۔ پھر وہ آپ کے متعلق کہنے لگے کہ مولانا مودودی صاحب متوازن ذہن کے عالم ہیں اور ان کی سوچ انتہا پسندانہ نہیں۔ آپ اس مسئلہ کا فیصلہ ان سے پوچھ دیجیے۔ چنانچہ یہ عریضہ ارسال خدمت ہے۔ وضاحت کے لیے ایک اور بات لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر ایک فاسق مسلمان نیکی کرے تو وہ قبول اور وہی نیکی یا اس سے بہتر نیکی اگر ایک غیر مسلم کرے تو وہ مسترد۔ اللہ ایسا جانبدار نہیں ہوسکتا یہ اس کی شانِ بندہ پروری کے خلاف ہے۔

خواب کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر

سوال: خواب کے متعلق یہ امر تحقیق طلب ہے کہ خواب کیسے بنتا ہے؟ اور اس معاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک لاشعور کی خواہشات، شعور میں آنا چاہتی ہیں مگر سوسائٹی کی بندشوں اور انا (EGO) کے دباؤ سے لاشعور میں دبی رہتی ہیں۔ رات کو سوتے وقت شعور سو جاتا ہے اور لاشعور چپکے سے ان خواہشات کو شعور میں لے آتا ہے۔ مگر ان خواہشوں کو لاشعور بھیس بدلوا دیتا ہے۔ (فرائڈ کے نزدیک سب خواب جنسی نوعیت کے (sexual) ہوتے ہیں)۔ چنانچہ جاگنے کے بعد خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اس کے لیے فرائڈ (MANIFEST CONTENT) کی حد استعمال کرتا ہے اور یہ اپنے اندر علامتیں رکھتا ہے جن کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ خواب کا اصل مطلب ان علامتوں کی تعبیر کرکے پتا چلتا ہے اور اصل مطلب کیا ہے ان علامتوں کا؟ یہ لا شعوری خواہشات میں چھپا ہوتا ہے۔ ان شعوری خواہشات کے لیے فرائڈ (LATENT CONTENT)کی حد استعمال کرتا ہے۔ نفسیات کے نزدیک تعبیر خواب دراصل یہ ہے کہ (MANIFEST CONTENT) یعنی ظاہر خواب سے اور اس کی علامتوں سے ( LATENT THOUGHT) معلوم کیا جائے۔ اس کے لیے نفسیات دان (FREE ASSOCIATION) کی تکنیک استعمال کرتے ہیں اور خواب کی علامتوں (Symbols) کو جنسی معنی پہناتے ہیں۔

خوابوں کی پیروی

سوال: ”میں گزشتہ نماز جمعہ کے بعد سوگیا۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ دو معمر سفید ریش بزرگ موجود ہیں۔ میں قریب آیا تو ان میں سے ایک حضرت مولانا … ہیں اور دوسرے ان سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں۔ مولانا … مجھے علیٰحدہ تنہائی میں لے گئے اور فرمانے لگے کہ تم مولانا مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی کی حمایت چھوڑ دو۔ یہ اچھی بات نہیں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ اس دن سے عجیب تردّد ہے۔ کیونکہ میں تو صرف متاثرین میں سے ہوں اور میری طرف سے جماعت کی حمایت للہیت پر مبنی ہے اگر آنجناب کچھ تحریر فرما سکیں تو نوازش ہوگی۔“

نذر ونیاز میں ایصال ثواب

سوال: براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:

(ا) نذر ،نیاز اور فاتحہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(ب) کیا ایک دکان دار کسی ایسے شخص کے ہاتھ بھی اپنا مال فروخت کرسکتا ہے، جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا ذریعہ معاش کلیتہً معصیت فاحشہ کی تعریف میں آتا ہے؟

علم غیب، حاضر و ناظر اور سجود لغیر اللہ:

سوال: تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔ شرک کے مسئلہ پر ذہن الجھ گیا ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع و بصیر ہونا (جس کے تحت ہمارے مروجہ الفاظ حاضر و ناظر بھی آجاتے ہیں) بھی شامل ہیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے اور حقوق میں سجدہ و رکوع وغیرہ بھی ذات باری تعالیٰ سے مختص ہیں۔ شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابل تلافی گناہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے، نہ کرواتا ہے۔ مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اللہ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟

لفظ ’’مشرک‘‘ کا اصطلاحی استعمال

سوال: آپ کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بابت ماہ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب ’’رسائل و مسائل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔ لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوئے حق کے جذبہ کے تحت سطور ذیل رقم کر رہا ہوں۔

کتاب و سنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عالم ما کان وما یکون اور ’’حاضر و ناظر ہونا‘‘ اللہ جل شانہ کی مختص صفات ہیں۔ بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کا وجود حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کرلے تو کتاب و سنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب و سنت کے احکام سے رو گردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضائے انصاف ہے۔