تصوف اور تصور شیخ

سوال: میں نے پورے اخلاص و دیانت کیساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیاہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی کا اپنے آپ کو ادنیٰ خادم اور ہمدرد تصورکرتا ہوں۔ حال ہی میں چند چیزیں تصوف اور تصور شیخ سے متعلق نظر سے گزریں جنہیں پڑھ کر میرے دل و دماغ میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ آپ عجمی بدعات کو مباح قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ اب تک کا سارا لٹریچر ان کے خلاف زبردست احتجاج رہا ہے۔ جبکہ ہماری دعوت کا محور ہی فریضہ اقامت دین ہے تو اگر ہم نے خدانخواستہ بدعت کو انگیز کیا تو اسکے معنی یہ ہونگے کہ ساری بدعت کو تحریک میں گھس آنے کا موقع دیدیا گیا۔ آپ براہِ کرم میری ان معروضات پر غور کرکے بتائیے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں تصوف اور تصور شیخ کے متعلق آپکے کیا خیالات ہیں اور فی نفسہ یہ مسلک کیا ہے؟ امید ہے کہ ترجمان القرآن میں پوری وضاحت کرکے مشکور فرمائیں گے۔

تزکیۂ نفس کی حقیقت

سوال: یہاں کی مقامی فضا تصوف کے چرچے سے معمور ہے۔ اس سے اکثر طرح طرح کے پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت دو باتیں دریافت طلب ہیں:

۱۔ تزکیہ نفس کی صحیح تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں رسول اللہﷺ کی تعلیم کیا تھی؟ متصوفین کا اس سلسلے میں صحیح عمل کیا رہا ہے؟ نیز ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے اس شعبہ میں کیا صورت اختیار کرنی چاہئے؟

ب۔ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیا کی طرح تزکیہ نفس کیا کرتے تھے اور عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟

تصوف سے متعلق چند تصریحات

سوال: میں دعوت الی اللہ اور اقامت دین اللہ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں، اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوف کو نہیں مانتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوف اور غیر اہل تصوف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔ باقی میں جب صوفی نہیں ہو تو مکار نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوف کا دعویٰ کروں۔ آپ کا یہ جواب سیدھا ساہ اور اچھا تھا مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات (صفحہ ۳۱) میں لکھتے ہیں:

”ذکر الٰہی جو زندی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں، جو بعد کے ادوار میں صوفیاء کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔“