رسول اللہﷺ کے تشریعی اختیارات

سوال(۱):جناب کی تصنیف ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میری نظر سے گزری۔ اس کے مطالعہ سے میرے تقریباً سب شکوک رفع ہوگئے سوائے چند کے جنہیں دور کرنے کے لیے آپ سے رجوع کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے۔

صفحہ ۷۹ پر آپ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراحتاً نبیﷺ کو تشریعی اختیارات دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امرو نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں بلکہ جو کچھ نبیﷺ نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضورﷺ نے حکم دیا ہے، یا جس چیز سے منع فرمایا ہے، وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے اختیارات سے ہے اور اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ مگر آپ نے تشریعی کام کی جو مثالیں دی ہیں (ص ۸۸ تا ۹۰) وہ دراصل تشریحی کام کی ہیں تشریعی کی نہیں۔ موخر الذکر کی جو مثالیں مجھے سوجھتی وہ ذیل میں مذکور ہیں اور ان کے بارے میں جناب سے ہدایت کا طالب ہوں۔

دعا میں بزرگوں کی حرمت و جاہ سے توسل

سوال: میں نے ایک مرتبہ دریافت کیا تھا کہ بجاہ فلاں یا بحرمت فلاں کہہ کر خدا سے دعا کرنے کا کوئی شرعی ثبوت ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب دیا تھا کہ اگر چہ اہل تصوف کے ہاں یہ ایک عام معمول ہے لیکن قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہوسکی۔ میں اس سلسلے میں ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ سورۃ بقرۃ میں اہل کتاب کے بارے میں آیا ہے:

وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواسورۃ البقرہ، آیت :89

یعنی بعثت محمدی سے پہلے یہودی کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

مذہب حنفی اور حدیث

سوال: بعض اعمال میں اقوال حضرت امام اعظم احادیث صحیحہ کے خلاف پائے جاتے ہیں جیسے فاتحہ خلف الامام، رفع یدین، آمین بالجہر، شرطِ مصر فی صلوٰۃ الجمعہ، وغیرہ تو کیا امام موصوف کے اقوال قرآن مجید سے مستنبط ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ احادیث کونسی ہیں؟ کیا وہ عندالمحدثین صحیح ہیں؟

حدیث کی تدوین جدید

سوال: قرآن کے بعد احادیث نبویہ کو دینی حجت ماننے یا نہ ماننے میں ہمارے اہل فکرونظر افراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ میرے خیال میں تفریط تو یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث کو تاریخی روایات کی حیثیت دی جائے اور افراط یہ ہے کہ احادیث صحاح ستہ میں قال رسولﷺ کے الفاظ سے جو کچھ بھی لکھا گیا ہو اسے کلیتہً رسول اللہﷺ کی سچی حدیث سمجھ لیا جائے اور اس پر دین و اعتقاد کی عمارت کھڑی کرلی جائے۔ میں اپنی معلومات کی کمی اور فکرونظر کی کوتاہی کی وجہ سے اس بارے میں کوئی نقطہ اعتدال نہیں پاسکا، براہِ کرم آپ ہی رہنمائی فرمائیے اور ان شبہات کو صاف کردیجیے۔

حدیث اور فقہ

سوال: ذیل میں آپ کے لٹریچر سے چند اقتباسات دربارہ مسئلے تقلید و اجتہاد و مرتب کرکے کچھ استفسارات کئے جاتے ہیں۔ان سے صرف علمی تحقیق مقصود ہے، بحث مدعا نہیں ہے:

۱۔ ’’تمام مسلمان چاروں فقہوں کو برحق مانتے ہیں۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملے میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے علماء نے طے کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک ہی پیروی کرنی چاہئے۔‘‘ (رسالہ دینیات طبع دوم ۱۲۵)

احادیث کی تحقیق میں اسناد اور تفقہ کا دخل

سوال: خط و کتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اطمینان بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہوسکتی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلہ ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہل حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے اس کی اصلاح و تنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے۔ جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔ باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیونکہ اب سے پہلے بھی اخبار اہل حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب…… میں تفہیمات کے اقتباسات(مسلک اعتدال) سنا سنا کر جماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افراد میں بد دلی پیدا کر رہے ہیں اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میں مزاحمت ہو رہی ہے۔

حدیث کے بعض احکام کو خلاف قرآن مجید سمجھنے کی غلطی

سوال: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نماز کی تیاری کریں تو ہمیں وضو کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے از سر نو وضو کرنا ضروری ہے، نماز پڑھ لینے کے بعد وضو کی میعاد ختم ہوجاتی ہے اور دوسری نماز کے لئے بہرحال الگ وضو کرنا لازمی ہے۔ پھر یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ لوگ ایک وضو سے کئی کئی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں وضو کے جو ارکان بیان ہوئے ہیں، ان میں کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے کا ذکر نہیں ہے اور نہ کہیں ایسے افعال و عوارض کی فہرست دی گئی ہے جن سے وضو ٹوٹتا ہے۔ اس صورت میں کلی وغیرہ کرنا اور بعض امور کو نواقض وضو قرار دینا کیا قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟ صلوٰۃ قصر کے بارے میں بھی قرآن مجید وضاحت کرتا ہے کہ صرف پُر خطر جہاد میں ہی نماز میں قصر کیا جاسکتا ہے۔ کیا عام پُر امن سفر میں قصر خلاف قرآن مجید نہیں ہے؟

مسئلہ تقدیر

سوال: مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر میں ذیل کی متفق علیہ حدیث وارد ہے:

ان خلق احد کم یجمع فی بطن امہ … ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمات فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی اوسعید ثم ینفخ فیہ الروح۔

’’یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالی اس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتیں دے کر بھیجتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے عمل، عمر، رزق اور شقاوت و سعادت کے بارے میں نوشتہ تیار کر دیتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔‘‘

اب سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سارے معاملات کا فیصلہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو پھر آزادی عمل اور ذمہ داری کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ عام طور پر ایسی ہی احادیث سن لینے کے بعد لوگ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں؟

انسان کے ’’فطرت‘‘ پر پیدا ہونے کا مفہوم

سوال: حدیث ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا باعث آپ کی کتاب خطبات کی وہ عبارت ہے جس میں آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’انسان ماں کے پیٹ سے اسلام لے کر نہیں آتا‘‘۔ اس حدیث کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ہر بچہ مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے، مگر آپ کی مذکورہ بالا عبارت اس سے ابا کرتی ہے۔ آپ کی اس عبارت کو دیگر معترضین نے بھی بطور اعتراض لیا ہے۔ مگر میں اس کا مطلب کسی اور سے سمجھنے یا خود نکالنے کے بجائے آپ ہی سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ معترض نے آپ پر اعتراض کردیا اور بادی النظر میں اس کا اعتراض معقول معلوم ہوا مگر جب آپ کی طرف سے اس عبارت کا مفہوم بیان ہوا تو عقل سلیم نے آپ کے بیان کردہ مفہوم کی تصدیق کی۔

گھر، گھوڑے اور عورت میں نحوست

سوال: میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسا مکان فروخت ہو رہا ہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دور کے رشتہ داروں کو وہ مکان میراث میں ملا ہے۔ میں نے اس مکان کے خریدنے کا ارادہ کیا تو میرے گھر کے بعض افراد مزاحم ہوئے اور کہنے لگے کہ گھر منحوس ہے، اس میں رہنے والوں کی نسل نہیں بڑھتی حتیٰ کہ اصل مالک پر خاندان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ گھر کے لوگوں نے ان احادیث کا بھی حوالہ دیا جن میں بعض گھروں، گھوڑوں اور عورتوں کے منحوس ہونے کا ذکر ہے۔ میں نے کتب احادیث میں اس سے متعلق روایات دیکھیں اور متعارف شروح و حواشی میں اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی پڑھا، لیکن جزم ویقین کے ساتھ کوئی متعین تشریح سمجھ میں نہ آسکی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

  • 1
  • 2