حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے دو اجزاء

سوال:سوال نمبر ۱ کے بارے میں آپ کے مختصر جواب سے اندازہ ہوا کہ میرے سوال کا مرکزی نکتہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشن سے متعلق ہے جناب کی تائید سے محروم رہا اور آپ نے اپنے جواب میں اپنے اسی موقف کا اعادہ فرمایا جو اس سے قبل آپ تفہیم القرآن میں پیش کرچکے ہیں۔ آپ کے نقطۂ نظر کو قبول کرنے میں جو اشکال ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور آلِ فرعون کے ایمان سے مایوس ہونے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت نہیں فرمائی تھی بلکہ آغاز نبوت ہی میں فرعون کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ’’ارسالِ بنی اسرائیل‘‘ کا مطالبہ بھی پیش فرما دیا تھا۔ اس کی آخر کیا مصلحت تھی؟ کیا صرف ایمان کی دعوت کافی نہیں تھی؟ اس اشکال کا ایک ہی حل میری سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ، دعوت ایمان کا بدل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر فرعون ایمان نہ لائے تب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرجائیں۔ بلکہ یہ ایک مستقل مطالبہ تھا جسے اگر فرعون ایمان لے آتا تب بھی پورا کرایا جاتا۔ قرآن کا انداز بیان بھی اسی کی تائید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

امید ہے کہ جناب اپنی اولین فرصت میں میری اس گزارش پر توجہ دیں گے اور اپنی دوبارہ غور فرمودہ رائے سے آگاہ فرمائیں گے۔

جواب: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے سامنے دعوت دین اور ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ ایک ساتھ پیش کرنا فی الواقع وہی اشکال پیدا کرتا ہے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں اس قصے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر غور کرنے سے یہ اشکال رفع ہوجاتا ہے۔

ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ آغاز ہی میں اس لیے پیش کردیا گیا کہ ایک مسلمان قوم، جو مصر ہی میں نہیں، اس وقت پورے شرقِ اوسط میں بلکہ شاید پوری متمدن دنیا میں توحید و رسالت کی ماننے والی واحد قوم تھی، ایک مدت سے کفار کے شدید ظلم و ستم کی تختہ مشق بنی ہوئی تھی اور حالات اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ اس کا مٹ جانا یا کفار میں جذب ہوجانا مستقبل قریب میں بالکل یقینی نظر آتا تھا۔ اس حالت میں یہ انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ پہلے ایک کافی مدت تک فرعون و ملائے فرعون کو دین حق کی دعوت دی جاتی رہے اور جب اس کے مسلمان ہونے کی کوئی امید باقی نہ رہے تب یہ مطالبہ لے کر اٹھا جائے کہ جو مسلمان قوم اس کی سر زمین میں موجود ہے اسے وہ ملک سے نکل جانے کی اجازت دے دے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا اور اس قوم کی حفاظت کے مسئلے سے قطع نظر کرکے صرف دعوت دین کے تقاضے پورے کیے جاتے رہتے تو ۲۵۔۳۰ سال کی مدت میں، جو اہل مصر پر حجت پوری کرنے کے لیے درکار تھی، یہ مسلمان قوم فنا ہوجاتی اور اس کے معنی یہ ہوتے کہ نئے سرے کے حصول کی فکر میں وہ سرمایہ بھی کھودیا گیا جو پہلے سے موجود تھا۔

لیکن چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک قومی لیڈر نہیں تھے، بلکہ فی الاصل ان کا مشن دعوت دین تھا، اس لیے انہوں نے محض ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ ہی نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دین کی دعوت بھی پیش فرمائی اور آخر وقت تک اس کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ دعوت اگر کامیاب ہوجاتی اور مصر کا فرمانروا طبقہ اسلام قبول کرلیتا تو پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ ایک مسلمان قوم خواہ مخواہ دارالاسلام سے ہجرت کرکے کسی دارالکفر کی طرف منتقل ہوتی جہاں اسے از سر نو کفار سے برسرپیکار ہونا پڑتا۔ مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، مصر میں دعوت دین کے ساتھ ساتھ ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ بھی شروع کردیا گیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بھی اسرائیل کی پھیلی ہوئی آبادیاں ملک چھوڑ کر نکل جانے کے لیے آخری مرحلے میں یکایک تیار نہ کی جاسکتی تھیں۔ ان میں یہ عزم صرف اس وجہ سے پیدا ہوا کہ ۲۵۔۳۰ سال سے ان کو اس کے لیے تیار کیا جارہا تھا، ورنہ ان کا (Moral) مدت دراز کی غلامی اور ظلم و ستم نے اس بری طرح توڑ دیا تھا کہ عین وقت پر اگر ان سے نکلنے کے لیے کہا جاتا تو کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا۔

(ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۸ء)