فرعون موسیٰ علیہ السلام ایک تھا یا دو؟

سوال: میں تفسیر القرآن کے سلسلے میں اپنا ایک شبہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ترجمان جنوری ۱۹۶۱ء میں سورہ قصص کی تفسیر کرتے ہوئے جناب نے میرے خیال میں اسلاف مفسرین کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بالمقابل ایک کی بجائے دو فرعون قرار دیے ہیں، حالاں کہ قرآن مجید کے متعلقہ مقامات کا مطالعہ کرنے سے فرعون سے مراد ایک ہی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے، یہ وہی فرعون ہے جو انکار دعوت کے بعد غرق ہوا۔ اسی طرح فرعون کی بیوی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پرورش کرنا بھی قرآن میں مذکور ہے اور پھر انہی خاتون کے اسلام لانے پر ان کا فرعون کے ہاتھوں ستایا جانا بھی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے فرعون سے نجات پانے کے لیے دعا مانگی تھی۔

میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کس بنا پر غرق ہونے والے فرعون کو اس فرعون سے جدا سمجھا ہے جس کے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پالے گئے تھے؟

جواب: ’’فرعون‘‘ مصر کے بادشاہوں کا ایک خاندانی لقب تھا۔ فرعون موسیٰ کے بارے میں بنی اسرائیل کی متفقہ روایات یہ ہیں کہ وہ دو تھے۔ جدید تاریخی تحقیقات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں اور عقل بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ دہ ہوں کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پچاس سال کی عمر میں فرعون کے دربار میں پہنچے ہیں اور تیس سال کی کشمکش کے بعد آخر کار فرعون غرق ہوا ہے اور بنی اسرائیل ملک سے نکلے ہیں۔ گویا اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر ۸۰ برس تھی۔ اب یہ بات کم ہی قرین قیاس ہے کہ یہ وہی فرعون ہو جس کے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نومولود کی حیثیت سے پہنچے تھے اور جس کی بیوی نے ان کو متبّٰنی بنایا تھا۔ موخر الذکر خیال کی تائید میں جو آیتیں پیش کی جاتی ہیں، وہ اس باب میں صریح الدلالت نہیں ہیں۔ مثلاً ان میں سے ایک آیت وہ ہے جس میں فرعون کا قول منقول ہوا ہے کہ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا ’’کیا ہم نے تجھے بچہ سا اپنے گھر میں نہیں پالا تھا؟‘‘ لیکن کیا باپ کے ہاں پرورش پائے ہوئے آدمی سے بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ تجھے ہم نے اپنے ہاں پالا ہے؟ اسی طرح سورہ قصص میں جس امرأۃ فرعون کا ذکر ہے، بعض کے خیال میں وہ لازماً وہی ہونی چاہیے جس کا ذکر سورہ تحریم میں آیا ہے لیکن ان دونوں کے الگ شخصیتیں ہونے میں آخر کیا چیز مانع ہے؟ قرآن مجید میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے کہ فرعون کی جو بیوی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں، وہ وہی تھیں جن کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام ٹوکری میں تیرتے ہوئے شیر خواہ بچے کی حیثیت سے پہنچے تھے اور جنہوں نے ان کو قتل سے بچا کر بیٹا بنایا تھا۔

(ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۱ء)