کیا حضرت آدم ؑ کے جسم کی ساخت موجودہ انسان جیسی نہ تھی؟

سوال: عرض یہ ہے کہ میں اپنے ایک عزیز کے دو اعتراضات کا جواب تسلی بخش طور پر نہ دے سکا۔ ازراہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ اعتراضات یہ ہیں:

۲۔ آپ کے عزیز مجھے معاف کریں اگر میں یہ کہوں کہ وہ قرآن سے زیادہ ڈارون کے معتقد ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے تخلیقِ آدم ؑ کے متعلق قرآن کے تمام بیانات کو نظر انداز کرکے ڈارون کی رائے کے مطابق حضرت آدم ؑ کا واحد الخلیہ سالمہ(Uni-Cellular Molecule) ہونا (ازراہ مہربانی صحیح قرار دینے سے احتراز کرتے ہوئے صرف) ’’ممکن‘‘ٹھہرایا ہے، اور مجھ سے یہ سوال کیا ہے کہ آخر تمہارے پاس یہ جاننے کا کون سا مستند ذریعہ ہے کہ حضرت آدم ؑکے جسم کی ساخت ویسی ہی تھی جیسی موجودہ انسان کی ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ اگر صاحب موصوف کے نزدیک قرآن مجید علم کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے تو ان سے بحث لاحاصل ہے، کیونکہ محض عقلی حیثیت سے آدمؑ کے جسم کی ساخت کا موجودہ انسان کی ساخت جیسا ہونا بھی اسی طرح ’’ممکن‘‘ ہے جس طرح اس کا واحد الخلیہ سالمہ ہونا ’’ممکن‘‘ ہے ۔امکان میں جب دونوں برابر ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے لیے کوئی ’’مستند ذریعہ علم‘‘ نہیں ہے تو خواہ مخواہ بحث میں کیوں وقت ضائع کیا جائے؟ لیکن اگر وہ قرآن کو علم کا مستند ذریعہ مانتے ہوں تو تھوڑی سی زحمت اٹھا کر سورہ بقرہ: آیات ۳۰ تا ۳۹، سورہ اعراف: آیات ۱۱ تا ۲۵، سورہ حجر: آیات ۲۶ تا ۴۲، سورہ بنی اسرائیل: آیات ۶۱ تا ۶۵، اور سورہ طٰحٰہ: آیات ۱۱۵تا ۱۲۳ بغور پڑھیں اور ڈارون کے نظریے کو نگاہ میں رکھ کر پڑھیں۔ کیا ان کی عقل یہ تصور کرسکتی ہے کہ قرآن کی ان آیات میں جو کچھ حضرت آدمؑ کے متعلق بیان کیا گیا ہے وہ ایک واحد الخلیہ سالمہ پر راست آتا ہے؟

اس کے ساتھ میں ایک اور بات بھی آپ کے عزیز سے کہنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اگر وہ قرآن کو علم کا مستند ذریعہ نہ سمجھتے ہوں تو ان کی اپنے ضمیر اور اپنے اخلاق اور اپنے معاشرے کے ساتھ اس سے بڑی کوئی بے انصافی نہیں ہوسکتی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایک راستباز انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ سچے دل سے تو اسلام کا قائل نہ ہو مگر اس کا صاف صاف اظہار و اقرار کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شامل رکھ کر مسلسل فریب دہی کا ارتکاب کرتا رہے۔

(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۷۷ء)