شہداء کی حیاتِ برزخ

سوال: سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۱۲۶ میں، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انہیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انہیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔

۲۔ سورۃ المومن، آیت ۶۱۔۵۷ تک کا ترجمہ جلد دوم میں صفحہ ۲۸۳ سے ۲۸۷ تک چلتا ہے۔ قرآن کا متن جو تفہیم القرآن میں شائع ہوا ہے اس میں صفحہ ۲۸۷ پر یُسَارِعُوْنَ کا لفظ آتا ہے، لیکن اس کا ترجمہ صفحہ ۲۸۳ پر ہی کردیا گیا ہے۔ اکثر پڑھنے والوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ چونکہ اصل لفظ اور ترجمہ میں چار صفحات کا فاصلہ ہے اس لیے پڑھنے والے کا ذہن الجھ جاتا ہے۔

۳۔سورہ یٰس ٓ آیت ۲۶، حاشیہ ۲۳، تفہیم القرآن، جلد چہارم میں مردِ مومن کی شہادت کے بعد اس کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتِ برزخ کو ثابت کرنے والی آیات میں سے یہ آیت بھی ایک ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالم برزخ میں روح جسم کے بغیر زندہ رہتی ہے، کلام کرتی ہے اور کلام سنتی ہے، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ اس پر اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس مقام میں تو ایک شہید کی حالت کا ذکر ہے اور شہید کی زندگی بعد موت کا ذکر قرآن میں سورہ البقرۃ آیت ۵۴ اور دیگر مقامات میں بھی ہے۔ لیکن تفہیم کے اس حاشیے میں ایک شہید کے حالات کو بھی عام وفات یافتہ انسانوں پر کیوں منطبق کیا گیا ہے؟

جواب: سورۂ بقرہ آیت ۱۵۴ کے جس نوٹ کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اس میں ’’مردہ نہ کہو‘‘ کی جو توجیہ میں نے کی ہے اس سے مقصود حیاتِ شہداء و صالحین کے متعلق لوگوں کے اس ،خیال کی اصلاح ہے کہ وہ زندہ اس معنی میں ہیں کہ ہماری دعائیں سنتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مردہ سے جس بنا پر روکا ہے اور ان کی حیات کا اثبات کیا ہے وہ کفار و منافقین کی ان باتوں کو رد کرنے کے لیے ہے جو وہ لَّوْ کَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَا تُوْا وَمَا قُتِلُوْا اور لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا کہہ کہہ کر اہل ایمان میں بزدلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ورنہ خود قرآن ہی میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ شہادت جسمانی موت تو ضرور ہے (وَلَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِ الَی اللہِ تُحْشَرُوْنَ) مگر حقیقت میں یہ حیاتِ جاوداں ہے (بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَرَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ)۔ اسی معنی میں مَیں نے بھی انہیں مردہ کہنے کو حقیقتِ واقعہ کے خلاف قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے لیے حیاتِ برزخ اور حیات اخروی ثابت ہے۔

سورہ مومنون کی آیات ۵۷ تا ۶۱ کے ترجمے میں آپ نے جس تقدیم و تاخیر کی طرف توجہ دلائی ہے، اس کے متعلق بعد کے ایڈیشنوں میں حاشیہ ۵۰ الف لکھ کر وضاحت کردی گئی ہے کہ اردو زبان کی رعایت سے آیت ۶۱ کا ترجمہ پہلے کردیا گیا ہے اور آیات ۵۷ تا ۶۰ کا ترجمہ بعد میں درج کیا گیا ہے۔

سورہ یٰس ٓ کے حاشیہ ۲۳ کو اگر آپ سورۂ بقرہ کے حاشیہ ۱۵۵ اور سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۸ کے ساتھ پڑھیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ شہداء کی حیات اصل میں برزخی حیات ہی ہے، ورنہ جسم و روح کی علیحدگی کے اعتبار سے جس طرح دوسرے لوگوں پر موت وارد ہوتی ہے اسی طرح شہداء پر بھی وارد ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے اور ان کی بیوہ کا نکاح ثانی جائز ہے۔ لیکن ان کو مردہ کہنے سے جس بنا پر منع کیا گیا ہے وہ اوپر میں بیان کرچکا ہوں۔

(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۷۷ء)