مباہلہ و مناظرہ

سوال: میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں، مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودیؒ دعوتِ مباہلہ و مناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالانکہ نبیﷺ نے خود یہودسے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور انبیاء و سلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اورنہ ہی مناظرہ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض یا سنت نہیں ہے تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کر دیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

جواب: آپ کے جن عزیز نے فرمایا ہے کہ آنحضورﷺ نے یہود سے مباہلہ کا فیصلہ فرمایا تھا ان کی معلومات ناقص ہیں۔ مباہلہ کا فیصلہ حضورﷺ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور یہ مباہلہ یہود سے نہیں بلکہ عیسائیوں سے کیا گیا تھا۔ نبیﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مباہلہ کا صرف یہی ایک واقعہ ملتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے مباہلے کو نزاعی امور کے فیصلے کا مستقل طریقہ قرار نہیں دیا ہے کہ جب کبھی کسی کافر یا مسلمان سے کسی قسم کا اختلاف ہو تو فوراً مباہلے کی دعوت دے ڈالی جائے۔ پیشہ ور مناظرین نے آجکل مباہلے کو کُشتی کے داؤں میں باضابطہ طور پر شامل کر لیا ہے۔ لیکن پوری تاریخ اسلام میں مباہلے کی دعوت اور اسے قبول کرنے کی مثالیں مشکل ہی سے مل سکیں گی۔ صحابہ کرامؓ میں بڑے بڑے اختلافات ہوئے، حتیٰ کہ بعض اوقات لڑائیوں تک کی نوبت آئی لیکن مباہلہ کرنے کی نوبت شاذ و نادر ہی آئی ہے۔ تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے، بڑے بڑے مسائل پر بحثیں بھی ہوئیں۔ لیکن مباحثہ کے بجائے مباہلہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی علماء کے مابین اختلاف رائے کا ظہور ہوا۔ تکفیر و تفسیق کا بازار بھی گرم ہوا لیکن مباہلے کو کبھی کسی نے اپنا معمول نہیں بنایا۔

خود نبیﷺ کے زمانے میں آپ کے مخالفین کثیر تعداد میں موجود تھے۔ یہود، نصاریٰ، منافقین ہر ایک نے قدم قدم پر آپ کی مخالفت کی مگر ایک نجران کے نصاریٰ کے سوا اور کسی سے مباہلہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ مباہلہ ایک استثنائی طریق کار تھا جسے بعض خاص وجوہ و حالات کی بناء پر صرف نجرات کے عیسائیوں کے معاملے میں خود اللہ تعالیٰ نے متعین فرمایا تھا اور یہ مسائل کے تصفیے کا کوئی مقرر قاعدہ و ضابطہ نہیں ہے جسے ہمیشہ ہر متنازع فیہ معاملے میں اختیار کیا جاسکے۔ نجران کے معاملے میں کیوں خاص طور پر یہ شکل اختیار کی گئی اس کی ایک وجہ جو احادیث سے معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے تین دینی پیشوا جو وفد کی شکل میں نبیﷺ کے پاس آئے تھے وہ اپنے دلوں میں آپ کی نبوت کے قائل اور معترف ہو چکے تھے، لیکن صرف اپنی قوم میں اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے ایمان لانے سے پرہیز کر رہے تھے۔ سفر کے دوران میں ان میں سے جب ایک نے نبیﷺ کے حق میں ناشائستہ الفاظ اپنی زبان سے نکالے تو دوسرے نے فوراً ٹوک دیا اور کہا کہ اس شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق نازیبا کلمات استعمال نہ کرو کیونکہ یہ وہی نبی ہیں جس کے بارے میں پیشنگوئیاں ہماری کتابوں میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو چونکہ علم غیب کی بناء پر ان کے دلوں کا چور معلوم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ اس دلی اعتراف کے بعد مباہلے کی دعوت قبول کرنے اور لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہہ کر اپنے اوپر لعنت مسلط کرنے کی جرأت کبھی نہیں کریں گے، اس لیے ان کی باطنی کیفیت کو بے نقاب کرنے کے لیے اللہ نے یہ شکل تجویز فرمائی۔ چنانچہ اس کا نتیجہ وہی نکلا۔ وفد نجران نے مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور ان کا کذب و نفاق بالکل عیاں ہوگیا۔

آپ کے عزیز نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ میں مناظرہ کیوں نہیں کرتا، حالانکہ انبیاء و صلحا اپنے مخالفین سے مناظرے کرتے رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مناظرہ یا مجادلہ صرف بحث و استدلال کی حد تک محدود تھا اور آجکل عرف عام میں جس چیز کو مناظرہ کہاجاتا ہے اس کی نوعیت مرغ بازی کی سی ہے۔ معقول طریق پر اگر کوئی آدمی کسی مسئلے پر زبانی یا تحریری بحث کرے تو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہوتا اور اگر ممکن اور ضروری سمجھوں تو ایسی بحث میں حصہ بھی لے لیتا ہوں۔ لیکن پیشہ ور اور جھگڑالو مناظرے بازوں سے چونچیں لڑانا میرا کام نہیں ہے۔ یہ مشغلہ جن لوگوں کو زیب دیتا ہے وہ بخوشی اسے اختیار کیے رکھیں۔

(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ۔ اگست ۱۹۵۶ء)