پاکستان کے اسلامی ریاست نہ بننے کی ذمہ داری کس پر ہے؟

سوال: ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اوراس کے بعد نوائے وقت میں جناب کے حوالہ سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہمالاؤں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکت خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوزا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائد اعظم کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان اورلیاقت علی خان کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔

نوائے وقت میں جو افسوسناک بحث چل نکلی ہے، جناب کی طرف سے خاموشی اس کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ جناب کی معمولی سی تردید، اس آڑے وقت میں جبکہ ملت کو نوائے وقت کی رہنمائی اور جناب کی قیادت کی از بس ضرورت ہے، ختم کرنے میں ایک مجاہدانہ کردار ادا کرے گی۔

جواب: وکلا کے کنونشن میں جو تقریر میں نے کی تھی اس کے بارے میں ایک بات تو صریحاً خلاف واقعہ بیان کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ میری تقریر کنونشن کے پہلے دن کی آخری تقریر تھی اور اس کی تردید میاں طفیل محمد صاحب کو دوسرے دن کی کاروائی کے عین آغاز میں کرنی پڑی۔ حالانکہ میری تقریر کنونشن کے دوسرے دن کی کاروائی میں آخری تقریر تھی جس کے بعد سرے سے کوئی اور تقریر ہوئی ہی نہیں۔ اس لیے اس بات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میاں طفیل صاحب نے میری تقریر کی تردید میں کچھ کہا ہو۔

دوسرے ایک زیادتی جو میرے ساتھ پہلے بھی اکثر کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی میں پاکستان میں اسلامی نظام کے نافذ نہ ہونے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالتا ہوں جن کے ہاتھ میں تقسیم کے بعد یہ ملک آیا، تو فوراً قائداعظمؒ مرحوم کو سامنے لاکھڑا کیا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے دراصل یہ ذمہ داری ان پر ڈالی ہے اور میرا یہ حملہ دراصل ان کی نیت پر ہے۔ حالانکہ میں نے اس سلسلے میں کبھی مرحوم کا نام نہیں لیا۔ ’’طاہر‘‘ میں میری تقریر کا جو خلاصہ شائع ہوا ہے اسے پھر پڑھ کر دیکھ لیا جائے۔ اس میں کہاں یہ کہا گیا ہے کہ ملک حاصل ہونے کے بعد اسلامی نظام قائم نہ ہونے کے ذمہ دار قائداعظمؒ تھے یا یہ کہ اس معاملہ میں وہ مخلص نہ تھے؟

اور بات صرف یہی نہیں ہے کہ میں نے قائداعظمؒ کے متعلق یہ بات کبھی نہیں کہی بلکہ اس کے برعکس ۱۹۵۳ء؁ میں جب جسٹس منیر نے تحقیقاتی عدالت میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء؁ کو قائد اعظم نے جو تقریر مجلس دستور میں کی تھی اس میں انہوں نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ پاکستان کا دستور لادینی نوعیت کا (Secular) ہوگا، تو میں نے اس کی مفصل تردید قائداعظمؒ کی ان تقریروں کے حوالے سے کی جو وہ تقسیم سے قبل اور اس کے بعد مسلسل کرتے رہے تھے۔ میری یہ تحریر اسی زمانے میں اخبارات میں شائع ہوگئی تھی اور اب بھی وہ میری کتاب ’’قادیانی مسئلہ اور اس کے سیاسی، دینی و تمدنی پہلو‘‘ میں صفحہ ۱۸۸ سے ۱۹۲ تک دیکھی جاسکتی ہے۔ اب کیا یہ انصاف ہے کہ جس خیال کی تردید میں اپنی ایک شائع شدہ مفصل تحریر میں کرچکا ہوں، اسی کو میری طرف منسوب کیا جائے؟ اور کیا ضروری ہے کہ بار بار جب مجھ پر یہ الزام لگایا جائے تو ہر بار میں اس کی تردید کرتا رہوں؟

قائداعظمؒ کے متعلق یہ بات کس کو معلوم نہیں ہے کہ ملک کا نظم و نسق عملاً ان کے ہاتھ میں کبھی نہیں آیا؟ تقسیم کے بعد وہ صرف ۱۳ مہینے زندہ رہے، اور اس مدت کا بڑا حصہ انہوں نے بیماری کی حالت میں گزارا۔ پھر جو ابتدائی زمانہ ایسا تھا کہ جس میں وہ کچھ کام کرسکتے تھے اس میں بھی وہ قیامِ پاکستان کی ابتدائی مشکلات کو رفع کرنے میں تمام تر مصروف رہے۔ اس لیے جب میں کہتا ہوں کہ ’’جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار آیا وہ اسلامی نظام نافذ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے‘‘، تو اس سے مراد قائداعظمؒ کی ذات نہیں ہوتی بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عملاً مرکز اور صوبوں میں حکمران تھے اور مختلف ادوار میں حکمران ہوتے رہے۔

(ترجمان القرآن،اگست ۱۹۷۶ء)