دو شبہات

سوال:’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ اصولاً صرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریہ کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے کر چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تل گیا تھا، مگر ترجمان القرآن میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غوروتامل کا فیصلہ کرنا پڑا۔ میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران و سرگرداں مسافر کی حیثیت سے، جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ مشارالیہ کے مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں۔

۱۔آپ نے تحریر فرمایا کہ:

’’مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ محض گمان صحت، نہ کہ علم الیقین۔‘‘

یہ عقیدہ جہاں تک بندے کا خیال ہے، محدثین کے بالکل خلاف ہے کتب اصول میں بصراحت موجود ہے کہ جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے لیے قانونی کتاب ہے، اسی طرح حدیث، اور جس طرح قرآن مجید کے احکام، چاہے اصولی ہوں، چاہے فروعی، ہمارے لیے حجت ہیں، اسی طرح احادیث بھی حجت ہیں۔ آپ کے طرز تحریر سے کسی حد تک حدیث سے بے توجہی معلوم ہوتی ہے۔

۲۔ڈاڑھی کے متعلق نبی کریمﷺ کی احادیث صحیحہ موجود ہیں جن میں آپ نے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ ڈاڑھی کو مطلقاً بڑھایا جائے۔ آپ کترنے کی گنجائش نکالنا چاہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ ابن عمرؓ کی روایت کے بموجب ایک مشت تک کٹوا دیں۔ اس سے زیادہ کم کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ باقی جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ و تابعین کے حالات میں ان ڈاڑھیوں کی مقدار کا ذکر کہیں شاذونادر ہی ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف میں یہ مسئلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا جو آج اسے دے دی گئی ہے تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اصل میں قرون ماضیہ میں لوگ اس کے اس قدر پابند تھے کہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج سے چند سال پہلے عام مسلمان ڈاڑھی کے نہ صرف مونڈوانے بلکہ کتروانے تک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پس اس چیز کی وقعت اور قدر لوگوں کے دلوں سے کم نہ کیجیے بلکہ بحال رہنے دیجیے۔

ان دونوں شکوک پر اپنے خیالات سے آگاہ فرمائے۔‘‘

جواب: آپ کے شبہات کا جواب بالاختصار دے رہا ہوں۔ غالباً یہ چند سطور اطمینان کے لیے کافی ہوں گی۔

۱۔نبی کریمﷺ کے قول و فعل کو میں بھی قرآن کی طرح حجت مانتا ہوں، اور میرے نزدیک جو عقیدہ حضور اکرمﷺ نے بیان کیا ہو یا جو حکم حضور اکرمﷺ آپ نے ارشاد فرمایا ہو، وہ اسی طرح ایمان و اطاعت کا مستحق ہے جس طرح کوئی ایسا عقیدہ یا حکم جو قرآن میں آیا ہو۔ لیکن قول رسولﷺ اور وہ روایات جو حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ لازماً ایک ہی چیز نہیں ہیں، اور نہ ان روایات کو استناد کے لحاظ سے آیات قرآنی کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔آیات قرآنی کے منزل من اللہ ہونے میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے، بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضورﷺ کا ہے یا نہیں۔ جو سنتیں تواتر کے ساتھ نبیﷺ سے ہم تک منتقل ہوئی ہیں یا جو روایات محدثین کی مسلمہ شرائط تواتر پر پوری اترتی ہیں وہ یقیناً ناقابل انکار حجت ہیں لیکن غیر متواتر روایات سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ صرف ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے علمائے اصول میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ غیر متواتر روایات احکام کی ماخذ تو ہوسکتی ہیں لیکن ایمانیات کی ماخذ نہیں ہوسکتیں۔

۲۔ جو باتیں آپ نے ڈاڑھی کے متعلق تحریر فرمائی ہیں ان پر میں اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بحث کرچکا ہوں۔ اور اب خواہ مخواہ ایک ہی بات کو متھے جانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی فروعی مسئلے میں میرے دلائل سے آپ کا اطمینان ہوجائے تو بہتر ہے، اور اطمینان نہ ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں، آپ اس معاملے میں میری رائے کو غلط سمجھ کر رد کردیں اور جو کچھ خود صحیح سمجھتے ہوں اس پر عمل کریں۔ اس قسم کے جزوی مسائل میں ہم مختلف رائیں رکھتے ہوئے بھی ایک ہی دین کے پیرو رہ سکتے ہیں اور اس دین کی اقامت کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔

آپ نے لکھا ہے کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے ہی والا تھا کہ یہ دو چیزیں میرے سامنے آگئیں اور انہیں دیکھ کر میں رک گیا۔ اس رک جانے کو آپ شاید کوئی تقویٰ کا فعل سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ ذرا غورکریں گے تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ فی الواقع آپ نے تقویٰ کا مفہوم غلط سمجھا ہے اور اسی وجہ سے ایک غیر متقیانہ فعل کو متقیانہ فعل سمجھ کر آپ کر گزرے ہیں۔ آپ کو یہ اعتراف ہے کہ یہ جماعت اصل دین کی اقامت کے لیے بنی ہے جو ہر مومن کے عین ایمان کا متقاضی ہے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے صرف جماعت اسلامی ہی کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’اس نظریے کو قبول کرنا اور اسے پھیلانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘اب سوال یہ ہے کہ اس تقاضائے ایمان اور اس فرض کی طرف بڑھتے بڑھتے آپ کا صرف اس لیے رک جانا کہ ایک علمی مسئلے کی تعبیر اور ایک جزوی فقہی مسئلے کی تحقیق میں آپ جماعت کے اس خادم کی رائے کو غلط پاتے ہیں، آخر کس قسم کا تقویٰ ہے؟ فقہی و علمی اختلاف تو خیر بہت چھوٹی چیز ہے کہ اس کے لیے فریقین کے پاس شریعت سے دلائل موجود ہوتے ہیں، میں ثابت شدہ سنتوں کے متعلق آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان کی خلاف ورزی دیکھ کر بھی اگر آپ اس فرض سے اجتناب کرجائیں تو کیا یہ پرہیز گاری ہے؟ مثلاً آپ دیکھیں کہ امام نے مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں قدم پہلے رکھا اور یہ دیکھتے ہی آپ جماعت چھوڑ کر مسجد سے پلٹ آئیں، یا آپ دیکھیں کہ اسلامی فوج کے جنرل نے الٹے ہاتھ سے پانی پیا یا چھینک آنے پرالحمد للہ نہ کہا اور اس خلاف سنت حرکت سے متنفر ہو کر آپ میدان جہاد سے پلٹ آئیں تو کیا واقعی اس کو آپ پرہیزگاری سمجھیں گے؟ آپ کو موازنہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا چھوڑا تھا اور آپ نے کیا چھوڑ دیا۔ وہ بڑا غلط کار تھا کہ اس نے ایک پیسہ ضائع کیا۔ مگر آپ نے تو اس کے جواب میں خزانہ برباد کردیا۔ پھر بتایئے کہ زیادہ بڑا غلط کار کون ہوا؟ تاہم یہ آپ کا تصور نہیں ہے بلکہ آج کل دینداری کا عام ڈھنگ یہی ہے کہ اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول65ھ ۔ فروری 46ء)