اسلامی نظام جماعت میں آزادی تحقیق

سوال: ’’تفہیمات‘‘ کا مضمون ’’مسلک اعتدال‘‘ جس میں صحابہ کرام اور محدثین کی باہمی ترجیحات کو نقل کیا گیا ہے اور اجتہاد مجتہد اور روایت محدث کو ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس مضمون سے حدیث کی اہمیت کم اور منکرین حدیث کے خیالات کو تقویت حاصل ہوتی ہے، یہ رائے نہایت درجہ ٹھنڈے دل سے غورو فکر کا نتیجہ ہے۔

اس قسم کے سوالات اگر آپ کے نزدیک بنیادی اہمیت نہیں رکھتے تو جماعت اسلامی کی ابتدائی منزل میں محدثین و فقہا اور روایت و درایت کے مسئلہ پر قلم اٹھانا مناسب نہیں تھا۔ اس مسئلہ کے چھیڑ دینے سے غلط فہمیاں پھیل نکلی ہیں۔ اب بہتر ہے کہ بروقت ان غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا جائے کیونکہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے والے خیالات جس لٹریچر میں موجود ہوں اسے پھیلانے میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں، حالانکہ نظم جماعت اسے ضروری قرار دیتا ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریرں مع تنقید اخبارات و رسائل میں شائع کردی جائیں۔

جواب: فقہی مسائل میں اجتہاد و استنباط کے اصول اور طریقوں کے متعلق غالباً پہلے بھی کبھی کوئی شخص ایسی بات نہیں کہہ سکا جس سے کسی کو بھی اختلاف کی گنجائش نہ ہو اور جس پر سب لوگ متفق ہوجائیں۔ اور اگر آپ غور کریں تو آپ کو باآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان اختلافات کے لیے کافی گنجائش خود کتاب اللہ اور ذخیرہ احادیث میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے سلف صالحین کے درمیان ہر دور میں اختلافات ہوئے ہیں۔ پھر کیا ان اختلافات کا منشاء یہی تھا کہ اصل دین کی دعوت اور اقامت کے لیے بھی مسلمان کبھی ایک جماعت نہ بن سکیں؟ اور اگر صدیوں میں کوئی ایسی جماعت کبھی بنے تو فقہی مسائل پر کلام کرنا چھوڑدیا جائے؟ یا نہیں تو پھر سارے فقہی اختلافات کو پہلے صاف کیا جائے۔

اگر آپ کانقطہ نظر یہی ہے تو مجھے اس پر افسوس ہے اور سوائے اس کے کہ میں اس کو بدقسمتی سمجھوں اور کیا کر سکتا ہوں۔لیکن اگر آپ کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے تو پھر براہ کرام اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ہماری یہ جماعت اصل دین کی دعوت و اقامت کے لیے کھڑی ہوئی ہے اور اس کام میں تمام ان فقہی مسالک کے آدمیوں کو مجتمع ہوجانا چاہئے جن کے اصول اور طریقوں کے لیے قرآن و حدیث میں بنیادیں موجود ہیں۔ لیکن یہ اجتماع اسی طرح ممکن ہے کہ ہر شخص کو مسائل فقہیہ میں اصولی گنجائشوں کی حد تک تحقیق کی آزادی حاصل رہے، اور یہ آزادی تحقیق ان مختلف المسالک لوگوں کے درمیان ایسی نزاع کی موجب نہ بنے جو نفس اجتماع برائے اقامت دین میں مانع ہو۔ اسی وجہ سے میں اس بحث کو ٹال رہا ہوں جسے آپ لوگ بار بار چھیڑ رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ فقہیات کو اصل دین سمجھنے کی جس ذہنیت کے باعث مسلمان مدتوں آپس میں جھگڑے کرتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کا متحد ہونا اور اصل دین کے لیے مل کر کام کرنا غیر ممکن ہوگیا ہے، وہی ذہنیت بار بار بروئے کار آئے چلی جارہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تمام دین کی اصل و اساس بس وہی امور ہیں جو آپ معرض بحث میں لارہے ہیں۔میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ مجھے ان چیزوں پر بحث کرنے کے لیے اتنا وقت حاصل نہیں ہے جتنا آپ حضرات کو حاصل ہے۔ اس لیے مختصر مختصر جوابات اپنے خطوط میں دیتا رہا ہوں۔ لیکن اگر آپ کا منشا یہی ہے کہ میں اور سب کام چھوڑ کر انہی بحثوں میں الجھ جاؤں تو بسم اللہ، ایک اور مفصل مضمون روایت اور اجتہاد کی توضیح میں لکھ دوں گا۔ مگر یقیناً اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ آپ حضرات کو اطمینان ہوجائے، بلکہ ہوگا یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر کے تمام اہل حدیث حضرات میرے ساتھ اس بحث میں الجھ جائیں گے اور ہمارے لیے ایک نصب العین پر جمع ہو کر کام کرنا محال ہوجائے گا۔ پھر یہ فساد اس مقام پر بھی ختم نہیں ہوگا، بلکہ جب ان بحثوں کا دروازہ کھلے گاتو میرے وہ مضامین بھی زیر بحث آجائیں گے جن پر کچھ حنفی حضرات آپ لوگوں کی طرح بگڑے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے محاذ پر ایسی ہی ایک جنگ شروع ہوجائے گی۔ لہٰذا آپ ایک مرتبہ پھر مجھے سوچ کر لکھیے کہ کیا یہی آپ کا منشا ہے۔

رہی یہ بات کہ اگر یہ باتیں بنیادی حیثیت نہیں رکھتیں تو جماعت کی ابتدائی زندگی میں ان پر قلم اٹھانا مناسب نہ تھا، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اب تک میں نے کوئی ایسی چیز نہیں لکھی ہے جس پر کسی نہ کسی گروہ کو چوٹ نہ لگی ہو اور اگر میں یہ فیصلہ کرلوں کہ کوئی ایسی چیز نہ لکھی جائے جو مسلمانوں کے کسی گروہ کو ناگوار ہو تو شاید کچھ بھی نہ لکھ سکوں۔ مگر یقین کیجیے کہ اس معاملے میں جتنا ناکام میں ہوا ہوں اس سے شاید بہت زیادہ ناکام آپ حضرات ثابت ہوں گے۔ اگر آپ اس دعوت کے لیے کام کرنے کھڑے ہوں تو غالباً چند صفحے بھی ایسے نہ لکھ سکیں گے جو اہلحدیث حضرات کے سوا کسی دوسرے گروہ کو ناگوار ہوئے بغیر رہ سکتے ہوں پس خوب سمجھ لیجیے کہ اصل چیز ان مباحث سے پرہیز نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو کچھ لکھے یا کہے وہ معقولیت کو برقرار رکھتے ہوئے، حدود ملحوظ رکھتے ہوئے، شان تحقیق کے ساتھ لکھے اور دوسرے لوگ جو اس کے سننے والے یا پڑھنے والے ہیں، ان کے اندر کچھ قوت تحمل، کچھ وسعت قلب، کچھ رواداری اور کچھ اصول و فروع کی تمیز موجود ہو۔

آپ کا یہ خیال تو بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ جب لٹریچر میں کوئی وجہ اختلاف موجود ہے تو اسے کیسے پھیلا یا جاسکتا ہے۔ ذرا مجھے کوئی ایسا لٹریچر بتا دیجیے جس میں تمام چیزیں تمام لوگوں کے منشاء کے مطابق ہی ہوں۔ موجودہ دور میں نہیں، متقدین کے دور میں ہی بتلا دیجیے۔

اگر اس بحث کا فیصلہ اس طرح ہوسکے کہ آپ یا آپ کے ہم خیال حضرات میں سے کوئی صاحب میری تحریروں پر ایک تنقید لکھ کر شائع کردیں تو میں اس کو دل سے پسند کروں گا اور اس تنقید کے جواب میں ایک حرف بھی نہ لکھوں گا، تاکہ کسی طرح اس قضیہ کا خاتمہ تو ہو۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال63ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)