سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 1

پچھلے چند مہینوں سے ترجمان القرآن میں خلافت کے متعلق جو بحث چل رہی ہے اس سلسلے کے مضمون ’’خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘ کے آخری حصے اور ’’خلافت سے ملوکیت تک‘‘ کی پوری بحث پر میرے پاس بکثرت سوالات و اعتراضات آئے ہیں۔ ان سب کو نقل کرکے ان کے جوابات دینے میں بہت طوالت ہوجائے گی۔ اس لیے میں ان سب کا اکھٹا جواب ان صفحات میں دے رہا ہوں۔ جواب کے ہر عنوان سے سوال یا اعتراض کی نوعیت خود واضح ہوجائے گی۔

ابوالاعلیٰ مودودی

(۱)

ان مضامین کی اصل نوعیت

سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ مضامین، جن کے بارے میں یہ سوالات و اعتراضات کیے گئے ہیں، دراصل میری ایک کتاب کے دو باب ہیں۔ کچھ مدت سے ترجمان میں اس کتاب کے ابواب باقساط شائع ہو رہے ہیں اور آگے ہوتے رہیں گے۔ پہلا باب ’’قرآن کی سیاسی تعلیمات‘‘ تھا۔ دوسرا ’’اسلام کے اصول حکمرانی‘‘۔ تیسرا ’’خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘۔ چوتھا ’’خلافت سے ملوکیت تک‘‘ جس میں مَیں نے یہ بتایا ہے کہ خلافت راشدہ کی جگہ ملوکیت کیسے اور کن اسباب سے آئی۔ اس کے بعد پانچواں باب اب ترجمان القرآن میں شروع ہوا ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت کی جگہ ملوکیت کے آجانے سے فرق کیا واقع ہوا، اس سے کیا نتائج رونما ہوئے، اور جب یہ فرق رونما ہو گیا تو مسلمانوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے کیا طریقے اختیار کیے۔ آگے چھٹا باب آنے والا ہے جس میں یہ بحث ہوگی کہ مسلمانوں میں فرقہ بندی کی ابتدا کیسے اور کن اسباب سے ہوئی، کن وجوہ سے اس تفرقے کو فروغ نصیب ہوا، اور اس فتنے کے زمانے میں امت کے سواد اعظم کا کیا طرز عمل رہا۔ پھر ساتویں اور آٹھویں ابواب میں امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے کام کو پیش کیا جائے گا۔ غرض یہ ایک پوری کتاب ہے جس کے مختلف ابواب آپ کے سامنے آرہے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ لوگ اس کی تکمیل کے بعد پوری کتاب کو دیکھ کر کوئی رائے قائم فرماتے۔

اس بحث کی ضرورت کیا ہے؟

جو تاریخی مواد ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے وہ تاریخِ اسلام کی مستند ترین کتابوں سے ماخوذ ہے، جیسا کہ آگے چل کر میں مآخذ کی بحث میں واضح کرونگا۔ میں نے جتنے واقعات نقل کیے ہیں ان کے پورے پورے حوالے نقل کردیئے ہیں اور کوئی ایک بات بھی بلا حوالہ درج نہیں کی ہے۔ اصحاب علم خود اصل کتابوں سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں کہ یہ سب کچھ وہاں موجود ہے یا نہیں اور میں نے اس میں کوئی کمی بیشی تو نہیں کی ہے۔

یہ تاریخ کہیں چھپی ہوئی نہیں پڑی تھی جسے میں یکایک نکال کر منظر عام پر لے آیا ہوں۔ یہ تو صدیوں سے دنیا میں پھیل رہی ہے اور طباعت و اشاعت کے جدید انتظامات نے اسے لاکھوں کروڑوں انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اسے کافر و مومن اور دوست و دشمن سب پڑھ رہے ہیں۔ اور یہ صرف عربی دانوں تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ تمام مغربی زبانوں میں مستشرقین نے اور ہماری اپنی زبان میں ترجمہ و تالیف کرنے والوں نے اسے بڑے پیمانے پر شائع کردیا ہے۔ اب نہ اسے ہم چھپا سکتے ہیں، نہ لوگوں سے کہہ سکتے ہیں کہ تم تاریخ اسلام کے اس دور کا مطالعہ نہ کرو، اور نہ خلق خدا کو اس پر کلام کرنے سے روک سکتے ہیں۔ اگر ہم صحت نقل اور معقول و مدلل اور متوازن طریقے سے اس تاریخ کو خود بیان نہ کریں گے اور اس سے صحیح نتائج نکال کر مرتب طریقے سے دنیا کے سامنے پیش نہ کریں گے تو وہ مغربی مستشرقین اور غیر معتدل ذہن و مزاج رکھنے والے مسلمان مصنفین جو اسے نہایت غلط رنگ میں پیش کرتے رہے ہیں اور آج بھی پیش کر رہے ہیں، مسلمانوں کی نئی نسل کے دماغ میں اسلامی تاریخ کا بالکل غلط تصور بٹھا دیں گے۔ آپ شاید اس سے ناواقف نہیں ہیں کہ پاکستان میں تمام ہائی سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم آج اسلامی تاریخ پڑھ رہے ہیں۔ ابھی اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے سیاسیات کے امتحان میں یہ سوالات آئے ہیں کہ قرآن نے ریاست کے متعلق کیا اصول بیان کیے ہیں، عہد رسالت میں ان اصولوں کو کس طرح عملی جامہ پہنایا گیا، خلافت کیا چیز تھا اور یہ ادارہ بادشاہی میں کیسے اور کیوں تبدیل ہوا؟ اب آپ کیا چاہتے ہیں کہ مسلمان طلبہ ان سوالات کے وہ جوابات دیں جو مغربی مصنفین نے دیئے ہیں؟ یا ان کے جواب میں ملا علی قاریؒ اور امام شافعیؒ کے اقوال نقل کردیں؟ آخر کیوں نہ ہم جرأت کے ساتھ اپنی تاریخ کے ان واقعات کا سامنا کریں؟ اور کیوں نہ بے لاگ طریقے سے ان کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک یہ متعین کردیں کہ خلافت اصل میں کیا چیز ہے، اس کے امتیازی اوصاف کیا ہیں، اس میں اور بادشاہی میں اصولاً کیا فرق ہے، اس سے بادشاہی کی طرف انتقال ہمارے ہاں کیوں اور کیسے ہو، اس کی جگہ بادشاہی آنے سے ہماری اجتماعی زندگی میں فی الواقع کیا فرق واقع ہوا، اور اس فرق کے نقصانات سے محفوظ رہنے یا ان کو کم کرنے کے لیے اکابر امت نے کیا کام کیا؟ جب تک ہم ان سوالات کا صاف اور مدلل و مرتب جواب نہ دیں گے، ذہنوں کی الجھنیں دور نہ ہوں گی۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ساری دماغ سوزی میں کس لیے کر رہا ہوں۔ برسوں سے اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا مگر انتظار کرتا رہا کہ کوئی دوسرا یہ ناخوشگوار مگر ضروری کام کردے اور میں اس سے بچ جاؤں۔ آخر کار جب دیکھا کہ کوئی اس ضرورت کو تو پورا نہیں کررہا ہے، اور اس کے بجائے افراط وتفریط سے بھر پور ایسی تحریریں نکلتی چلی آرہی ہیں جو خلافت کے اصل تصور ہی کو غتربود کیے دیتی ہیں تو مجبوراً میں نے یہ محسوس کیا کہ اس خدمت کو انجام دینا میرے ذمے مسلمانوں کا ایک قرض ہے جسے مجھ ہی کو ادا کرنا ہوگا۔

داعی حق کیا کرے؟: میرے بعض دوستوں نے مجھے یہ بھی لکھا ہے کہ تم اختلافی بحثوں میں نہ الجھو تم داعی حق ہو، بس دعوت حق کا کام کیے جاؤ تاکہ سب لوگ تمہاری بات سنیں۔ میں ان کی اس نصیحت کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ مگر میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا ہوں کہ داعی حق بے چارا مخالفتوں سے بچنے کی خاطر اگر نہ تفسیر میں کلام کرے، نہ حدیث میں، نہ فقہ میں، نہ عقائد اور علم کلام کے مسائل میں، نہ تاریخ میں، تو آخر وہ کلام کس چیز میں کرے اور اپنی دعوت کے مختلف گوشوں کو کیسے واضح کرے۔

اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْل کا صحیح مطلب

یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس طرح کی بحثوں سے صحابہ کی پوزیشن مجروح ہوتی ہے اور اس اعتماد میں فرق آتا ہے جو مسلمانوں کو ان پر ہونا چاہیے۔ اس معاملہ میں بھی چند امور کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔

صحابہ کرام کے متعلق میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو تمام محدثین و فقہاء اور علمائے امت کا عقیدہ ہے کہ ’’کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا ذریعہ وہی ہیں۔ اگر ان کی عدالت میں ذرّہ برابر بھی شبہ پیدا ہوجائے تو دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے۔ لیکن میں ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘ (صحابہ سب راستباز ہیں) کا مطلب یہ نہیں لیتا کہ تمام صحابہ بے خطا تھے اور ان میں کا ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالاتر تھا، اور ان میں سے کسی نے بھی کوئی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ سے روایت کرنے، یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابی نے کبھی راستی سے ہر گز تجاوز نہیں کیا ہے، پہلا مطلب اگر لیا جائے تو تاریخ ہی نہیں، حدیث کی مستند اور قوی روایات بھی اس کی تائید نہ کریں گی۔ اور دوسرا مطلب لیا جائے تو وہ قطعی طور پر ثابت ہے جس کے خلاف کوئی شخص کسی قابل اعتماد ذریعہ سے کوئی ثبوت نہیں لاسکتا۔ حد یہ ہے کہ صحابہ کی باہمی لڑائیوں تک میں، جبکہ سخت خونریزیاں ان کے درمیان ہوگئیں، کبھی کسی فریق نے کوئی حدیث اپنے مطلب کے لیے اپنی طرف سے گھڑ کر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب نہیں کی، نہ کسی صحیح حدیث کو اس بنا پر جھٹلایا کہ وہ اس کے مفاد کے خلاف پڑتی ہے۔ اس لیے مشاجراتِ صحابہ کی بحث میں یہ ذہنی الجھن لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ اگر کسی اکابر کا برسرحق ہونا اور کسی کا غلطی پر ہونا مان لیا جائے تو اس سے دین خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہم بلا استثناء تمام صحابہ کو رسول اللہﷺ سے روایت کے معاملہ میں قطعی قابل اعتماد پاتے ہیں اور ہر ایک کی روایت کو بسروچشم قبول کرتے ہیں۔

غلطی کے صدور سے بزرگی میں فرق نہیں آتا

میں صحابہ سمیت تمام غیر نبی انسانوں کو غیر معصوم سمجھتا ہوں اور معصومیت میرے نزدیک صرف انبیاء کے لیے خالص ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ غیر نبی انسانوں میں کوئی شخص اس معنی میں بزرگ نہیں ہوتا کہ اس سے غلطی کا صدور محا ل ہے، یا اس نے عملاً کبھی غلطی نہیں کی ہے، بلکہ اس معنی میں بزرگ ہوتا ہے کہ علم اور عمل کے لحاظ سے اس کی زندگی میں خیر غالب ہے۔ پھر جتنا زیادہ کسی میں خیر کا غلبہ ہوتا ہے میں اس کو اتنا ہی بڑا بزرگ مانتا ہوں، اور اس کے کسی فعل یا بعض افعال کے غلط ہونے سے میرے نزدیک اس کی بزرگی میں فرق نہیں آتا۔

اس معاملہ میں میرے اور دوسرے لوگوں کے نقطۂ نظر میں ایک بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات میری پوزیشن کو سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی لاحق ہوجاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بزرگ ہے وہ غلطی نہیں کرتا، اور غلطی کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے۔ اس نظریے کی بنا پر وہ چاہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے کسی کام کو غلط نہ کہا جائے، اور مزید برآں وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ جو شخص ان کے کسی کام کو غلط کہتا ہے وہ ان کو بزرگ نہیں مانتا۔ میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ میرے نزدیک ایک غیر نبی بزرگ کا کوئی کام غلط بھی ہوسکتا ہے اور اس کے باوجود بزرگ بھی وہ سکتا ہے۔ میں کسی بزرگ کے کسی کام کو غلط صرف اسی وقت کہتا ہوں جب وہ قابل اعتماد ذرائع سے ثابت ہو اور کسی معقول دلیل سے اس کی تاویل نہ کی جاسکتی ہو۔ مگر جب اس شرط کے ساتھ میں جان لیتا ہوں کہ ایک کام غلط ہوا ہے تو میں اسے غلط مان لیتا ہوں پھر اس کام کی حد تک ہی اپنی تنقید کو محدود رکھتا ہوں، اور اس غلطی کی وجہ سے میری نگاہ میں نہ ان بزرگ کی بزرگی میں کوئی فرق آتا ہے، نہ ان کے احترام میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ جن کو میں بزرگ مانتا ہوں ان کی کھلی کھلی غلطیوں کا انکار کروں، لیپ پوت کر کے ان کو چھپاؤں، یا غیر معقول تاویلیں کرکے ان کو صحیح ثابت کروں۔ غلط کو صحیح کہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے معیار بدل جائیں گے اور جو غلطیاں مختلف بزرگوں نے اپنی اپنی جگہ الگ الگ کی ہیں وہ سب اکھٹی ہمارے اندر جمع ہوجائیں گی اور لیپ پوت کرنے یا علانیہ نظر آنے والی چیزوں پر پردہ ڈالنے سے میرے نزدیک بات بنتی نہیں بلکہ اور بگڑ جاتی ہے۔ اس سے تو لوگ اس شبہ میں پڑ جائیں گے کہ ہمارے بزرگ فی الواقع کمال کے بلند ترین مرتبے پر پہنچے ہوئے تھے ان کی تاریخ بھی شاید ہم نے اسی طرح بنائی ہوگی۔

صحابہ میں فرقِ مراتب

صحابہ کرام کے معاملہ میں حدیث اور سِیر کی کتابوں کے مطالعہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ صحابیت کے شرف میں تو یکساں تھے، مگر علم و فضل اور سرکارِ رسالت مآبؐ سے اکتسابِ فیض اور آپ کی صحبت و تعلیم سے متاثر ہونے کے معاملہ میں ان کے درمیان فرقِ مراتب تھا۔ وہ بہرحال انسانی معاشرہ ہی تھا جس میں شمعِ نبوت روشن تھی۔ اس معاشرے کے تمام انسانوں نے نہ تو اس شمع سے نور کا اکتساب یکساں کیا تھا اور نہ ہر ایک کو اس کے مواقع دوسروں کے برابر ملے تھے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کی طبیعت الگ تھی، مزاج مختلف تھا، خوبیاں اور کمزوریاں ایک جیسی نہ تھیں۔ ان سب نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حضورؐ کی تعلیم اور صحبت کا اثر کم و بیش قبول کیا تھا، مگر ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے تھے، اور فی الواقع تھے جن کے اندر تزکیۂ نفس کی اس بہترین تربیت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو میں کوئی کمزوری باقی رہ گئی تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور صحابۂ کرام کے ادب کا کوئی لازمی تقاضا بھی نہیں ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔

بزرگوں کے کام پر تنقید کا صحیح طریقہ

تمام بزرگانِ دین کے معاملے میں عموماً اور صحابہ کرام کے معاملہ میں خصوصاً میرا طرز عمل یہ ہے کہ جہاں تک کسی معقول تاویل سے یا کسی معتبر روایت کی مدد سے ان کے کسی قول یا عمل کی صحیح تعبیر ممکن ہو، اسی کو اختیار کیا جائے اور اس کو غلط قرار دینے کی جسارت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس کے سوا چارہ نہ رہے۔ لیکن دوسری طرف میرے نزدیک معقول تاویل کی حدوں سے تجاوز کرکے اور لیپ پوت کرکے غلطی کو چھپانا یا غلط کو صحیح بنانے کی کوشش کرنا نہ صرف انصاف اور علمی تحقیق کے خلاف ہے، بلکہ میں اسے نقصان دہ بھی سمجھتا ہوں کیونکہ اس طرح کی کمزور وکالت کسی کو مطمئن نہیں کرسکتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی اصلی خوبیوں کے بارے میں جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ اس لیے جہاں صاف صاف دن کی روشنی میں ایک چیز علانیہ غلط نظر آرہی ہو وہاں بات بنانے کے بجائے میرے نزدیک سیدھی طرح یہ کہنا چاہیے کہ فلاں بزرگ کا یہ قول یا فعل غلط تھا، غلطیاں بڑے سے بڑے انسانوں سے بھی ہوجاتی ہیں، اور ان سے ان کی بڑائی میں کوئی فرق نہیں آتا، کیونکہ ان کا مرتبہ ان کے عظیم کارناموں کی بنا پر متعین ہوتا ہے نہ کہ ان کی کسی ایک یا دو چار غلطیوں کی بنا پر۔

مآخذ کی بحث

بعض حضرات نے ان کتابوں پر بھی اپنے شبہات کا اظہار فرمایا ہے جن سے میں نے ’’خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘ کے آخری حصے اور ’’خلافت سے ملوکیت تک‘‘ کی پوری بحث میں مواد اخذ کیا ہے۔ دراصل یہ دو قسم کے مآخذ ہیں۔ ایک وہ جن سے میں نے کہیں کہیں ضمناً کوئی واقعہ لیا ہے، یعنی ابن ابی الحدید، ابن قتیبہ اور المسعودی۔ دوسرے وہ جن کی روایات پر میں نے اپنی ساری بحث کا مدار رکھا ہے، یعنی محمد بن سعد، ابن عبد البر، ابن الاثیر، ابن جریر طبری اور ابن کثیر۔

ابن ابی الحدید

پہلی قسم کے مآخذ میں سے ابن ابی الحدید کا شیعہ ہونا تو ظاہر ہے، لیکن اس سے میں نے صرف یہ واقعہ لیا ہے کہ سیدنا علیؓ نے بیت المال میں سے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب کو بھی زائد از استحقاق کچھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ یہ بجائے خود ایک صحیح واقعہ ہے اور دوسرے مؤرخین بھی بتاتے ہیں کہ حضرت عقیلؓ اسی لیے بھائی کو چھوڑ کر مخالف کیمپ میں چلے گئے تھے۔ مثال کے طور پر ’’اصابہ‘‘ اور’’ الاستیعاب‘‘ میں حضرت عقیلؓ کے حالات ملاحظہ فرمالیجیے۔ اس لیے محض ابن ابی الحدید کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس امر واقعہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ابنِ قتیبہ

ابنِ قتیبہ کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ شیعہ تھا، یا شیعیت کی طرف کوئی میلان رکھتا تھا۔ نیز وہ غیر ثقہ بھی ہر گز نہ تھا۔ وہ ابو حاتم السجستانی اور اسحاق بن راہویہ جیسے آئمہ کا شاگرد اور دِیْنَوَر کا قاضی تھا۔ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’کَانَ ثقۃً نَبِیْلاً‘‘ (وہ ثقہ اور صاحب فضل و شرف آدمی تھا)۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ’’صدُوقٌ ‘‘(نہایت سچا آدمی)۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ ’’کان ثقۃً دَیِّنًا فاضلًا‘‘(وہ ثقہ، دیندار اور فاضل تھا)۔ مَسْلَمہ بن قاسم کہتے ہیں کہ ’’کان صدوقًا من اھل السنۃ یقال کان یذھب الی اقوال اسحاق بن راھویہ‘‘ (نہایت سچا آدمی تھا۔ اہل سنت میں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسحاق بن راہویہ کا پیرو تھا)۔ ابنِ حزمؒ کہتے ہیں ’’ثقۃ فی دینہٖ و علمہ‘‘ (اپنے دین اور علم میں بھروسے کے قابل)۔ ابنِ حجر اس کے مذہب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قال السلفی کان ابن قتیبۃ من الثقات و اھل السنۃ ولٰکن الحاکم کان بضدّہٖ من اجل المذھب … والذی یظھرلی ان مراد السلفی بالمذھب النصب، فان فی ابن قتیبۃ انحرافاً عن اھل البیت والحاکم علیٰ ضدّ من ذالک‘‘ (السّلفی کہتے ہیں کہ ابنِ قُتَیْبَہ ثقہ اور اہل سنت میں سے تھا مگر حاکم بر بنائے مذہب اس کے مخالف تھے … میرا خیال یہ ہے کہ مذہب سے سلفی کی مراد ناصبیت ہے، کیونکہ ابن قُتَیْبَہ میں اہل بیت سے انحراف پایا جاتا تھا اور حاکم اس کے برعکس تھے)۔ (البدایہ والنھایہ، ج ۱۱، ص ۵۷-۴۸۔ لسان المیزان ج ۳، ص ۳۵۷ تا ۳۵۹) اس سے معلوم ہوا کہ شیعی ہونا تو درکنار ابن قتیبہ پر تو الٹا ناصبی ہونے کا الزام تھا۔ رہی اس کی کتاب الامامہ و السیاسہ، اس کے متعلق یقین کے ساتھ کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ وہ ابن قتیبہ کی نہیں ہے۔ صرف شک ظاہر کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں بعض روایات ایسی ہیں جو ابن قتیبہ کے علم اور اس کی دوسری تصنیفات کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔ میں نے خود یہ پوری کتاب پڑھی ہے، اور اس کی چند روایتوں کو میں بھی الحاقی سمجھتا ہوں۔ مگر ان کی بنا پر پوری کتاب کو رد کردینا میرے نزدیک زیادتی ہے۔ اس میں بہت سی کام کی باتیں ہیں اور ان میں کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر وہ ناقابل قبول ہوں علاوہ بریں میں نے اس سے کوئی روایت ایسی نہیں لی ہے جس کی معنیً تائید کرنے والی روایات دوسری کتابوں میں نہ ہوں، جیسا کہ میرے دیئے ہوئے حوالوں سے ظاہر ہے۔

المسعودی

رہا المسعودی، تو بلاشبہ وہ معتزلی تھا، مگر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ غالی شیعہ تھا۔ اس نے مروج الذہب میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ لیجیے۔ شیعیت میں غلو رکھنے والا آدمی شیخین کا ذکر اس طریقہ سے نہیں کرسکتا۔ تاہم تشیع اس میں تھا، مگر میں نے اس سے بھی کوئی بات ایسی نہیں لی ہے جس کی تائید کرنے والے واقعات دوسری کتابوں سے نقل نہ کیے ہوں۔

اب دوسری قسم کے مآخذ کو لیجیے جن کے حوالوں پر میری ساری بحث کا اصل مدار ہے۔

ابنِ سعد

ان میں سب سے پہلے محمد بن سعد ہیں جن کی روایات کو میں نے دوسری روایات پر ترجیح دی ہے اور حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ کوئی ایسی بات کسی دوسری کتاب سے نہ لوں جو ان کی روایت کے خلاف ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عہد خلافتِ راشدہ سے قریب ترین زمانے کے مصنف ہیں۔ ۱۶۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۳۰ھ میں انتقال کیا۔ نہایت وسیع الاطلاع ہیں۔ سیرو مغازی کے معاملہ میں ان کی ثقاہت پر تمام محدثین و مفسرین نے اعتماد کیا ہے۔ اور آج تک کسی صاحب علم نے ان پر تشیع کے شبہ تک کا اظہار نہیں کیا ہے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں ’’محمد بن سعد عندنا من اھل العدالۃ و حدیثہ یدل علی صدقۃ فانہ یتحرّی فی کثیرٍ من روایاتہٖ‘‘ (محمد بن سعد ہمارے نزدیک اہل عدالت میں سے تھے اور ان کی حدیث ان کی صداقت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی اکثر روایات میں چھان بین سے کام لیتے ہیں)۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں ’’احد الحفاظ الکبار الثقات المتحرّین‘‘ (وہ بڑے ثقہ اور محتاط حفاظ حدیث میں سے ہیں)۔ ابن خلّکان کہتے ہیں ’’کان صدوقاً ثقۃ‘‘۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں ’’ثقہ مع ان استاذہ (ای الواقدی) ضعیف‘‘ (وہ ثقہ ہیں اگرچہ ان کے استاد و اقدی ضعیف تھے)۔ ابن تغری بِروی کہتے ہیں ’’وثقہٗ جمیع الحفاظ ماعدا یحییٰ بن معین‘‘ (ان کی توثیق یحییٰ بن معین کے سوا تمام حفاظ نے کی ہے)۔ خود ان کے استاذ واقدی کو بھی حدیث میں تو ضعیف کہا گیا ہے، مگر سیرو مغازی کے معاملہ میں تمام اہل الحدیث ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور یہی حال ان کے دوسرے اساتذہ مثلاً ہشام بن محمد بن السائب الکلبی اور ابو معشرکا ہے کہ انھم جمیعاً یوثقون فی السیرۃ والمغازی (سیرت اور غزوات کی تاریخ کے معاملہ میں سب نے ان پر اعتماد کیا ہے)۔

ابن جریر طبری

دوسرے ابن جریر طبری ہیں جن کی جلالتِ قدر بحیثیتِ مفسر، محدث، فقہ اور مورخ مسلّم ہے۔ علم اور تقویٰ دونوں کے لحاظ سے ان کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ان کو قضا کا عہدہ پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کردیا۔ دیوان المظالم کی صدارت پیش کی گئی اور اس کو بھی انہوں نے قبول نہ کیا۔ امام ابن خزیمہ ان کے متعلق کہتے ہیں ’’ما اعلم علیٰ ادیم الارض اعلم من ابن جریر‘‘(میں اس وقت روئے زمین پر ان سے بڑے کسی عالم کو نہیں جانتا)۔ ابن کثیر کہتے ہیں ’’کان احد ائمۃ الاسلام علماً و عملاً بکتاب اللہ و سنۃ رسولہٖ‘‘( وہ کتاب و سنت کے علم اور اس کے مطابق عمل کے لحاظ سے ائمۂ اسلام میں سے تھے)۔ ابن حجر کہتے ہیں ’’من کبار ائمۃ الاسلام المعتمدین‘‘ (وہ بڑے اور قابل اعتماد ائمۂ اسلام میں سے تھے)۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں ’’احد ائمۃ العلماء یحکم بقولہ ویرجع الیٰ رأیہٖ لمعرفتہٖ وفضلہٖ وقد جمع من العلوم مالم یشارکہ فیہ احد من اھل عصرہ‘‘ (وہ ائمۂ علما میں سے ہیں۔ ان کے قول پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے اس لائق ہیں۔ علوم میں ان کی جامعیت ایسی تھی کہ ان کے ہم عصروں میں کوئی ان کا شریک نہ تھا)۔ ابن الاثیر کہتے ہیں ’’ابو جعفر اوثق من نقل التاریخ‘‘ (ابو جعفر تاریخ نگاروں میں سب سے زیادہ بھروسے کے لائق ہیں)۔ حدیث میں وہ خود محدث مانے جاتے ہیں۔ فقہ میں وہ خود ایک مستقل مجتہد تھے اور ان کا مذہب اہل السنہ کے مذاہب ہی میں شمار ہوتا تھا۔ تاریخ میں کون ہے جس نے ان پر اعتماد نہیں کیا۔ خصوصیت کے ساتھ دورِ فتنہ کی تاریخ کے معاملہ میں تو محققین انہی کی آراء پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ابن الاثیر اپنی تاریخ ’الکامل‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ’’اصحاب رسول اللہﷺ کے مشاجرات کے معاملہ میں، میں نے ابن جریر طبری پر ہی دوسرے تمام مؤرخین کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کیا ہے کیونکہ ”ھوالام المتقن حقاً، الجامع علماً و صحۃ اعتقادٍ و صدقاً“۔ ابن کثیر بھی اس دور کی تاریخ میں انہی کی طرف رجوح کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میں نے شیعی روایات سے بچتے ہوئے زیادہ تر ابن جریر پر اعتماد کیا ہے ’’فانہ من ائمۃ ھٰذا الشان‘‘۔ بعض فقہی مسائل اور حدیث غدیر خُم کے معاملہ میں شیعہ مسلک سے اتفاق کی بنا پر بعض لوگوں نے خواہ مخواہ انہیں شیعہ قرار دے ڈالا۔اور ایک بزرگ نے تو ان کو امامٌ من ائمۃ الامامیہ تک قرار دے دیا۔ حالانکہ ائمہ اہل السنۃ میں کون ہے جس کا کوئی قول بھی کسی فقہی مسئلے یا کسی حدیث کی تصحیح کے معاملہ میں شیعوں سے نہ ملتا ہو۔ امام ابن تیمیہؒ کے متعلق تو آپ جانتے ہیں کہ جس شخص میں شیعیت کی بو بھی ہو وہ اس کو معاف نہیں کرتے۔ مگر محمد بن جریر طبری کی تفسیر کے متعلق وہ اپنے فتاویٰ میں کہتے ہیں کہ تمام متداول تفاسیر میں ان کی تفسیر صحیح ترین ہے ولیس فیہ بدعۃ۔ (فتاویٰ ابنِ تیمیۃؒ، جلد دوم صفحہ۱۹۲، مطبعۃ کردستان العلمیہ، مصر ۱۳۲۶ھ)

دراصل سب سے پہلے حنابلہ نے ان پر رفض کا الزام اس غصے کی بنا پر لگایا تھا کہ وہ امام احمد بن حنبلؒ کو صرف محدث مانتے تھے، فقیہ نہیں مانتے تھے۔ اسی وجہ سے حنبلی ان کی زندگی ہی میں ان کے دشمن ہوگئے تھے، ان کے پاس جانے سے لوگوں کو روکتے تھے اور ان کی وفات کے بعد انہوں نے مقابرِ مسلمین میں ان کو دفن تک نہ ہونے دیا حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پر دفن کیے گئے۔ اسی زیادتی پر امام ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ’’لقد ظلمتہ الحنابلۃ‘‘۔ اس کے بعد ان کی بدنامی کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ انہی کے ہم عصروں میں ایک اور شخص محمد بن جریر طبری کے نام سے معروف تھا اور وہ شیعہ تھا۔ لیکن کوئی شخص جس نے کبھی آنکھیں کھول کر خود تفسیر ابن جریر اور تاریخ طبری کو پڑھا ہے اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ یہ دونوں کتابیں اس شیعی محمد بن جریر الطبری کی لکھی ہوئی ہیں۔ (سنی ابن جریر اور شیعہ ابنِ جریر، دونوں کے حالات حافظ ابن حجر کی لسان المیزان، جلد پنجم میں صفحہ ۱۰۰سے ۱۰۳ تک ملاحظہ فرمالیں)

ابن عبدالبّر

تیسرے حافظ ابو عمر ابن عبدالبر ہیں جن کو حافظ ذہبی نے ’تذکرۃ الحفاظ ‘میں شیخ الاسلام کہا ہے۔ ابو الولید الباجی کہتے ہیں ’’لم یکن بالاندلس مثل ابی عمر فی الحدیث‘‘(اندلس میں ابو عمر جیسا عالم حدیث کوئی نہ تھا)۔ ابنِ حزم کہتے ہیں ’’لا اعلم فی الکلام علی فقہ الحدیث مثلہٗ اصلاً فکیف احسن منہ‘‘ (میرے علم میں فقہ حدیث کے علم میں کوئی ان کے برابر بھی نہ تھا کجا کہ ان سے بہتر ہوتا)۔ ابن حزم کہتے ہیں ’’لہ توالیف لا مثل لھا منھا کتاب الاستیعاب فی الصحابۃ لیس لاحد مثلہ‘‘(ان کی تالیف بے مثل ہیں اور ان میں سے ایک ”الاستیعاب“ ہے جس کے مرتبے کی کوئی کتاب سیرالصحابہ میں نہیں ہے)۔ صحابہ کی سیرت کے معاملہ میں ان کی الاستیعاب پر آخر کون ہے جس نے اعتماد نہ کیا ہو، یا اس شبہ کا اظہار کیا ہو کہ وہ تشیع کی طرف میلان رکھتے تھے۔

ابن الاثیر

چوتھے ابن الاثیر ہیں جن کی تاریخ الکامل اور اسد الغابہ تاریخ اسلام کے مستند ترین مآخذ میں شمار ہوتی ہیں اور بعد کے مصنفین میں کوئی ایسا نہیں ہے جس نے ان پر اعتماد نہ کیا ہو۔ قاضی ابنِ خلّکان جو ان کے ہم عصر تھے، لکھتے ہیں ’’کان اماماً فی حفظ الحدیث ومعرفتہٖ وما یتعلق بہٖ حافظاً للتواریخ المتقدمۃ والمتأخرۃ، وخبیراً بالنساب العرب وایّامھم وقائعھم واخبارھم‘‘(وہ حدیث کے حفظ اور اس کی معرفت اور اس کے متعلقات میں امام تھے، قدیم و جدید تاریخ کے حافظ تھے، اور اہل عرب کے انساب اور ان کے حالات سے خوب باخبر تھے)۔ (وفَیات الاعیان، ج ۳، ص۳۳، ۳۴) ان کے متعلق تشیع کی طرف ادنیٰ میلان کا شبہ بھی کسی نے نہیں کیا ہے۔ اور اپنی تاریخ کے مقدمہ میں وہ خود بصراحت کہتے ہیں کہ مشاجرات صحابہ کے بیان میں مَیں نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے۔

ابن کثیر

پانچویں حافظ ابن کثیر ہیں جن کا مرتبہ مفسر، محدث اور مورخ کی حیثیت سے تمام امت میں مُسلّم ہے۔ ان کی تاریخ البدایہ والنہایہ تاریخ اسلام کے بہترین مآخذ میں شمار ہوتی ہے اور صاحب کشف الظنون کے بقول اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ’’میّز بین الصحیح والسقیم‘‘ (وہ صحیح اور ناقص روایات میں تمیز کرتے ہیں)۔ حافظ ذہبیؒ ان کی تعریف میں کہتے ہیں ’’ الامام المفتی المحدث البارع فقیہ متفنن محدث متقن مفسر نقال‘‘۔ میں نے خاص طور پر ان کی تاریخ پر زیادہ تر اعتماد دو وجوہ سے کیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ تشیع کی طرف میلان تو درکنار، اس کے سخت مخالف ہیں، شیعی روایات کی بڑے زوروشور سے تردید کرتے ہیں، صحابہ میں سے کسی پر اپنی حد وسع تک آنچ نہیں آنے دیتے، اور دورِ فتنہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے انہوں نے حضرت معاویہؓ ہی نہیں یزید تک کی صفائی پیش کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھی ہے، مگر اس کے باوجود وہ اتنے متدیّن ہیں کہ تاریخ نگاری میں واقعات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ دوسری وجہ یہ ہے وہ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ اور ابن تیمیہؒ، دونوں سے متأخر ہیں، قاضی ابوبکرؒ کی العواصم من القواصم اور ابن تیمیہؒ کی منہاج السنہ سے ناواقف نہیں ہیں، بلکہ ابن تیمیہؒ کے تو وہ محض شاگرد ہی نہیں، عاشق ہیں اور ان کی خاطر مبتلائے مصائب بھی ہوئے ہیں۔ (الدرر الکامنہ لابن حجر، ج۱، س۳۷۴، طبع دائرۃ المعارف، حیدرآباد ۱۳۴۸ھ) اس لیے میں یہ شبہ تک نہیں کرسکتا کہ وہ شیعی روایات سے کچھ بھی متأخر ہوسکتے تھے، یا ان کو ماخذ کرنے میں کسی قسم کا تساہل برت سکتے ہیں، یا ان بحثوں سے واقف نہ تھے جو قاضی ابوبکرؒ اور ابن تیمیہؒ نے کی ہیں۔

کیا یہ تاریخیں ناقابل اعتماد ہیں؟

اب غور فرمایئے۔ یہ ہیں وہ مآخذ جن سے میں نے اپنی بحث میں سارا مواد لیا ہے۔ اگر یہ اس دور کی تاریخ کے معاملہ میں قابل اعتماد نہیں ہیں تو پھر اعلان کردیجیے کہ عہد رسالت سے لے کر آٹھویں صدی تک کی کوئی اسلامی تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے، کیونکہ عہد رسالت کے بعد سے کئی صدیوں تک کی پوری اسلامی تاریخ، شیخینؓ کی تاریخ سمیت، انہی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔ اگر یہ قابل اعتماد نہیں ہیں تو ان کی بیان کی ہوئی خلافت راشدہ کی تاریخ اور ائمہ اسلام کی سیرتیں اور ان کے کارنامے سب اکاذیب کے دفتر ہیں۔ جنہیں ہم کسی کے سامنے بھی وثوق کے ساتھ پیش نہیں کرسکتے۔ دنیا کبھی اس اصول کو نہیں مان سکتی، اور دنیا کیا، خود مسلمانوں کی موجودہ نسلیں بھی اس بات کو ہر گز قبول نہیں کریں گی کہ ہمارے بزرگوں کی جو خوبیاں یہ تاریخیں بیان کرتی ہیں وہ سب صحیح ہیں، مگر جو کمزوریاں یہی کتابیں پیش کرتی ہیں وہ سب غلط ہیں۔ اور اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ شیعوں کی سازش ایسی طاقتور تھی کہ ان کے دسائس سے اہل سنت کے یہ لوگ بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ان کی کتابوں میں بھی شیعی روایات نے داخل ہو کر اس دور کی ساری تصویر بگاڑ کر رکھ دی ہے، تو میں حیران ہوں کہ ان کی اس خلل اندازی سے آخر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی یہ سیرت اور ان کے عہد کی تاریخ کیسے محفوظ رہ گئی؟

وکالت کی بنیادی کمزوری

مآخذ کی اس بحث کو ختم کرکے آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے قاضی ابوبکر ابن العربیؒ کی العواصم من القواصم، امام ابن تیمیہؒ کی منہاج السنہ اور حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی تحفۂ اثنا عشریہ پر انحصار کیوں نہ کیا۔ میں ان بزرگوں کا نہایت عقیدت مند ہوں۔ اور یہ بات میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آئی کہ یہ لوگ اپنی دیانت و امانت اور صحتِ تحقیق کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ لیکن جس وجہ سے اس مسئلے میں میں نے ان پر انحصار کرنے کی بجائے براہِ راست اصل مآخذ سے خود تحقیق کرنے اور اپنی آزادانہ رائے قائم کرنے کاراستہ اختیار کیا وہ یہ ہے کہ ان تینوں حضرات نے دراصل اپنی کتابیں شیعوں کے شدید الزامات اور ان کی افراط و تفریط کے رد میں لکھی ہیں جس کی وجہ سے عملاً ان کی حیثیت وکیلِ صفائی کی سی ہوگئی ہے، اور وکالت، خواہ وہ الزام کی ہو یا صفائی کی، اس کی عین فطرت یہ ہوتی ہے کہ اس میں آدمی اسی مواد کی طرف رجوع کرتا ہے جس سے اس کا مقدمہ مضبوط ہوتا ہو، اور اس مواد کو نظر انداز کردیتا ہے جس سے اس کا مقدمہ کمزور ہوجائے۔ خصوصیت کے ساتھ اس معاملے میں قاضی ابوبکر تو حد سے تجاوز کر گئے ہیں جس سے کوئی ایسا شخص اچھا اثر نہیں لے سکتا جس نے خود بھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو۔ (باقی)

(ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۵ء)