خلافت و ملوکیت

سوال: میں نے جناب کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور عباسی صاحب کی جوابی کتاب ’’تبصرہ محمودی‘‘ حصہ اول و دوم کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عباسی صاحب اسلام کے سیاسی نظام کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسلام کا جو سیاسی نظریہ پیش فرمایا ہے وہ ذہنی پیچیدگی کا شاہکار ہے۔ البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب چند باتوں کی وضاحت کردیں تو آپ کے خلاف پروپیگنڈا علمی طبقہ میں مؤثر نہ ہوسکے گا۔ وضاحت طلب امور یہ ہیں: عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی طریقہ انتخاب برائے خلیفہ معین نہیں ہے اس لیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عوام کا اجتماع نہ تھا بلکہ چند افراد جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی بھی نہ تھی جمع ہوئے اس لیے یہاں عوامی رائے یا تائید کا کوئی سوال نہیں تھا۔

حضرت عمرؓکے معاملہ میں آپ کو حضرت ابوبکرؓ نے نامزد کردیا اور سب نے اس نامزدگی پر اتفاق کرلیا، رائے عامہ کے اظہار کا یہاں بھی کوئی سوال نہیں آیا۔ پھر عباسی صاحب کہتے ہیں کہ اگر رائے عامہ کے اصول کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بیعت تو صرف مدینہ میں ہوئی تھی۔ پورے ملک میں رائے عامہ یا مسلمانوں کی رضامندی کا سوال یہاں بھی خارج از بحث ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ عباسی صاحب معترض ہیں کہ اگر حضرت معاویہؓ کی حکومت ملوکیت تھی تو اجتماع صحابہ نے اس کی تائید و بیعت کیوں کی اور ان کی حکومت میں عہدے کیوں قبول کیے؟

مزید برآں عباسی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخ کو اسی طرح جانچنا چاہیے جس طرح حدیث کو فنِ رجال کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔

جواب: عباسی صاحب کی جن تین باتوں کا ذکر آپ نے کیا ہے، ان کا جواب میری کتاب خلافت و ملوکیت میں موجود ہے۔

۱۔ طریقہ انتخاب کے بارے میں ملاحظہ ہوصفحہ ۳۵۔۳۶۔۷۰۔۷۳ تا ۷۵۔ ۸۳ تا ۸۷۔۱۵۷ تا ۱۶۰۔۲۴۹۔ ۲۵۰۔

۲۔ اس سوال کا جواب کہ اگر حضرت معاویہؓ کی حکومت ملوکیت تھی تو صحابہ نے ان کی بیعت کیوں قبول کی اور ان کی حکومت میں عہدے کیوں قبول کیے، حسب ذیل صفحات پر ملاحظہ ہو: ۱۵۸، ۲۰۱ تا ۲۰۲۔ ۲۵۱ تا ۲۵۴۔

۳۔ آخری سوال کا ایک جواب تو میری کتاب میں صفحات ۳۱۶ تا ۳۱۸ پر موجود ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ عباسی صاحب خود جس تاریخی مواد پر اعتماد کرکے تاریخی حالات و واقعات بیان کرتے ہیں وہ بھی ان کے اپنے بیان کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اس شرط کے ساتھ اگر تاریخ لکھی جائے تو بعد کی صدیوں کا تو کیا ذکر، پہلی صدی کی تاریخ کا بھی ۱۰؍۹ حصہ غائب ہوجاتا ہے۔ اور یہ معاملہ تو اسلامی تاریخ کے ساتھ ہوگا۔ رہی دنیا کی عام تاریخ تو وہ ساری کی ساری ہی دریا برد کرنی پڑے گی، کیونکہ اس میں تو سند اور رجال کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔

(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)