توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح

(ذیل میں جس سوال کا جواب درج کیا جارہا ہے، اس کی بنیاد پر کئی سال سے ایک گروہ مصنف کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اس نے جمع بین الاختین کو حلال کردیا ہے۔ اب ہر شخص اسے خود پڑھ کر رائے قائم کرسکتا ہے کہ اس افترا کی حقیقت کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دو بھائیوں یا دو بہنوں کا متحد الجسم ہونا کوئی نا ممکن واقعہ نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۵۶ء کے ریڈرز ڈائجسٹ میں سیام کے متحد الجسم بھائیوں کا قصہ ملاحظہ فرمالیا جائے)

سوال: مندرجہ ذیل سطور بغرض جواب ارسال ہیں۔ کسی ملاقاتی کے ذریعے بھیج کر ممنون فرمائیں۔

بہاول پور میں دو توأم لڑکیاں متحد الجسم ہیں یعنی جس وقت وہ پیدا ہوئیں تو ان کے کندھے، پہلو، کولہے کی ہڈی تک آپس میں جڑے ہوئے تھے اور کسی طرح ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اپنی پیدائش سے اب جوان ہونے تک وہ ایک ساتھ چلتی پھرتی ہیں۔ ان کو بھوک ایک ہی وقت لگتی ہے۔ پیشاب پاخانہ کی حاجت ایک ہی وقت ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی عارضہ لاحق ہو تو دوسری بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کا نکاح ایک مرد سے ہوسکتا ہے یا نہیں۔ نیز اگر دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی ہیں تو اس کے لیے شرعی دلیل کیا ہے؟

مقامی علما نہ ایک مرد سے نکاح کی اجازت دیتے ہیں اور نہ دو سے۔ ایک مرد سے ان دونوں کا نکاح قرآن کی اس آیت کی رو سے درست نہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ دو حقیقی بہنیں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَالنساء4، 23 اس کو حکم بنیاد بنا کر اگر دو مردوں کے نکاح میں ان دو متحد الجسم عورتوں کو دے دیا گیا تو مندرجہ ذیل دشواریاں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر علما نے سکوت اختیار کرلیا مثلاً:

(۱) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک مرد اپنی منکوحہ نامزد بیوی تک ہی اپنے صنفی تعلقات کو محدود کرسکے گا اور دوسری متحد الجسم عورت سے جو اس کے نکاح میں نہیں ہے، تعرض نہ کرے گا۔

(۲) یہ دوسری عورت جو اپنی بہن سے متحد الجسم ہونے کے ساتھ متحد المزاج بھی ہے زوجی تعلق کے وقت متاثر نہ ہوگی۔

(۳) دونوں مردوں سے ایسا نکاح جس میں عورتیں (صنفی تعلقات کے وقت) متاثر ہوتی ہوں، ان کی حیا مجروح ہوتی ہو، ان میں رقیبانہ جذبات پیدا ہوتے ہوں، کیا نکاح کی اس روح کے منافی نہیں جس میں بتایا گیا ہے وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً (الروم 30، 21) وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (الاعراف 7، 189)۔

(۴) نکاح کا ایک بڑا مقصد افزائش نسل ہے اور والدین اور مولود میں شفقت بھی ہے۔ دو مردوں کا یہ نکاح اس تعلق پر کلہاڑا چلاتا ہے اور بھی مفاسد ہیں جن کے بیان کو یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

براہ کرم شریعت کی روشنی میں اس سوال کو حل کیجیے تا کہ یہ تذبذب دور ہو۔ ان عورتوں کے والدین ان کا نکاح کرسکیں اور اس فتنہ کا سد باب ہو جو جوان ہونے کی وجہ سے ان کو لاحق ہے۔

جواب: ان دونوں لڑکیوں کے معاملے میں چار صورتیں ممکن ہیں:

(۱) ایک یہ کہ دونوں کا نکاح دو الگ شخصیتوں سے ہو۔

(۲) دوسری کہ ان میں سے کسی ایک کا نکاح ایک شخص سے کیا جائے اور دوسری محروم رکھی جائے۔

(۳) تیسری یہ کہ دونوں کا نکاح ایک ہی شخص سے کردیا جائے۔

(۴) چوتھی یہ کہ دونوں ہمیشہ نکاح سے محروم رہیں۔

ان میں سے پہلی دو صورتیں تو ایسی صریح ناجائز، غیر معقول اور ناقابل عمل ہیں کہ ان کے خلاف کسی استدلال کی حاجت نہیں۔ اب رہ جاتی ہیں آخری دو صورتیں۔ یہ دونوں قابل عمل ہیں مگر ایک صورت کے متعلق مقامی علما کہتے ہیں کہ یہ چوں کہ جمع بین الاختین کی صورت ہے جسے قرآن مجید میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے لا محالہ آخری صورت پر ہی عمل کرنا ہوگا۔ بظاہر علما کی یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ دونوں لڑکیاں توأم بہنیں ہیں اور قرآن کا یہ حکم صاف اور صریح ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ لیکن اس پر دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ ان لڑکیوں کو دائمی تجرد پر مجبور کیا جائے اور یہ ہمیشہ کے لیے نکاح سے محروم رہیں؟ اور کیا قرآن کا یہ حکم واقعی اس مخصوص اور نادر صورت حال کے لیے ہے جس میں یہ دونوں لڑکیوں پیدائشی طور پر مبتلا ہیں؟

میرا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس مخصوص حالت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس عام حالت کے لیے ہے جس میں دو بہنوں کے الگ الگ مستقل وجود جمع ہوتے ہیں اور وہ ایک شخص کے جمع کرنے سے ہی بیک وقت ایک نکاح میں جمع ہوسکتی ہیں ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ عام حالات کے لیے حکم بیان کرتا ہے اور مخصوص، شاذ اور نادر الوقوع یا عسیر الوقوع حالات کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح کے حالات سے اگر سابقہ پیش آجائے تو تفقہ کا تقاضا یہ ہے کہ عام حکم کو ان پر جوں کا توں چسپاں کرنے کی بجائے صورت حکم کو چھوڑ کر مقصد کو مناسب طریقے سے پورا کیا جائے۔

اس کی نظیر یہ ہے کہ شارع نے روزے کے لیے بہ الفاظ صریح یہ حکم دیا ہے کہ طلوع فجر کے ساتھ اس کو شروع کیا جائے اور رات کا آغاز ہوتے ہی افطار کرلیا جائے۔ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ(البقرہ 2، 187) یہ حکم زمین کے ان علاقوں کے لیے ہے جن میں رات دن کا الٹ پھیر چوبیس گھنٹے کے اندر پورا ہوجاتا ہے اور حکم کو اس شکل میں بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی آبادی کا بیشتر حصہ انہی علاقوں میں رہتا ہے۔ اب ایک شخص سخت غلطی کرے گا، اگر اس حکم کو ان مخصوص حالات پر جوں کا توں چسپاں کردے گا جو قطب شمالی کے قریب علاقوں میں پائے جاتے ہیں، جہاں رات اور دن کا طول کئی کئی مہینوں تک ممتد ہوجاتا ہے۔ ایسے علاقوں کے لیے یہ کہنا کہ وہاں بھی طلوع فجر کے ساتھ روزہ شروع ہوجائے اور رات آنے پر کھولا جائے، یا یہ کہ وہاں سرے سے روزہ رکھا ہی نہ جائے، کسی طرح صحیح نہ ہوگا۔ تفقہ کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے مقامات پر صورت حکم کو چھوڑ کر کسی دوسری مناسب صورت سے حکم کا منشا پورا کیا جائے۔ مثلاً یہ کہ روزوں کے ایسے اوقات مقرر کرلیے جائیں جو زمین کی بیشتر آبادی کے اوقات صوت سے ملتے جلتے ہوں۔

یہی صورت میرے نزدیک ان دو لڑکیوں کے معاملہ میں بھی اختیار کرنی چاہیے جن کے جسم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نکاح دو الگ شخصوں سے کرنے یا سرے سے نکاح ہی نہ کرنے کی تجویز غلط ہیں۔ ان کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ ان تجمعوا بین الاختین کے ظاہر کو چھوڑ کر صرف اس کے منشا کو پورا کیا جائے۔ حکم کا منشا یہ ہے کہ دو بہنوں کو سوکناپے کی رقابت میں ابتلا کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ یہاں چوں کہ ایسی صورت در پیش ہے کہ دونوں کا نکاح یا تو ایک شخص سے ہوسکتا ہے یا پھر کسی سے نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ فیصلہ انہی دونوں بہنوں پر چھوڑ دیا جائے کہ آیا وہ بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جانے پر راضی ہیں یا دائمی تجرد کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر وہ پہلی صورت کو خود قبول کرلیں تو ان کا نکاح کسی ایسے شخص سے کردیا جائے جو انہیں پسند کرے اور اگر وہ دوسری صورت ہی کو ترجیح دیں تو پھر اس ظلم کی ذمہ داری سے ہم بھی بری ہیں اور خدا کا قانون بھی۔

اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ بالفرض یہ دونوں ایک شخص کے نکاح میں دے دی جائیں، اور بعد میں وہ ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے دے تو کیا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ اس صورت میں دونوں اس سے جدا ہوجائیں گی۔ ایک اس لیے کہ اسے طلاق دی گئی اور دوسری اس لیے کہ وہ اس سے تمتع نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ خلوت اجنبیہ کے جرم کا ارتکاب نہ کرے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اسے اپنے گھر پر بھی نہیں رکھ سکتا کیوں کہ مطلقہ لڑکی کو اپنے گھر رہنے پر مجبور کرنے کا اسے حق نہیں ہے اور غیر مطلقہ اس کے گھر اس وقت تک نہیں رہ سکتی جب تک کہ مطلقہ لڑکی بھی اس کے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا جب وہ ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے گا تو دوسری کو خلع کے مطالبے کا جائز حق حاصل ہوجائے گا۔ اگر وہ خلع نہ دے تو عدالت کا فرض ہے کہ اسے خلع پر مجبور کرے۔ یہ لڑکیاں اپنی پیدائش ہی کی وجہ سے ایسی ہیں کہ کوئی شخص نہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے اور نہ کسی ایک کو طلاق دے سکتا ہے۔ ان کا نکاح بھی ایک ساتھ ہوگا، طلاق بھی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۷۴ھ، جنوری ۱۹۵۴ء)