لفظِ نکاح کا اصل مفہوم

سوال: ترجمان القرآن بابت ماہ مارچ ۱۹۶۲ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں، ان میں سے پہلے ہی مسئلہ میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘ یا قرآن اسے اصطلاحاً ’’صرف عقد کے لیے استعمال کرتا ہے‘‘۔ یہ قاعدہ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔ تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے رائے دی ہو آپ نے قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔

جواب: یہ ایک لمبی بحث ہے کہ لغت کے اعتبار سے نکاح کے معنی کیا ہیں۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنی مشترک ہے تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقد تزویج کے ہیں اور وطی کے لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ چوتھا گروہ کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’لفظ نکاح کے اصل معنی عقد ہی کے ہیں۔ پھر یہ لفظ استعارۃ جماع کے لیے استعمال کیاگیا ہے، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو‘‘۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان میں، یا دنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقتاً وضع کیے گئے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقتاً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجاز و استعارہ کے طور پر استعمال کرے اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔

علمائے احناف بالعموم یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لفظ حقیقتاً وطی کے لیے اور مجازاً عقد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہ احناف کی متفق علیہ رائے نہیں ہے۔ بعض مشائخ حنفیہ اس لفظ کو وطی اور عقد کے درمیان مشترک معنوی بھی قرار دیتے ہیں۔ پھر نکاح کی شرعی تعریف تو ان کے ہاں یہی ہے کہ ’’ھوعقد یفید ملک الممتعۃ قصداً‘‘ یا ’’عقد وضع لتملیک منافع البضع‘‘۔

میرے نزدیک قرآن و سنت میں نکاح ایک اصطلاحی لفظ ہے جس سے مراد لازماً عقد تزویج ہی ہے اور جب یہ لفظ مطلقاً استعمال ہو گا تو اس سے مراد عقد ہی لیا جائے گا الا یہ کہ کوئی قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں مراد محض وطی یا عقد الوطی ہے۔ رہی وطی بلاعقد تو اس کے لیے لفظ نکاح کے استعمال کا جواز لغت میں تو ہو سکتا ہے لیکن قرآن و سنت میں اس کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں ہے۔ آپ کے علم میں ہو تو پیش فرمائیں۔

(اس کے جواب میں سائل نے فقہ کی بعض کتابوں سے مفصل عبارتیں نقل کر کے بھیجیں۔ اس پر ان کو حسب ذیل جواب دیا گیا۔م)

افسوس ہے کہ کسی مسئلے پرزیادہ طویل بحث کی فرصت مجھے میسر نہیں، تاہم میں اجمالاً ایک بار پھر اپنے مدعاً کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ اس کے بعد بھی اطمینان نہ ہو تو مضائقہ نہیں۔ آپ اپنی رائے پر قائم رہ سکتے ہیں اور میں اپنی رائے پر۔

نکاح سے مراد عقد اور وطی بعد عقد لینے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اس سے مراد وطی بغیر عقد بھی لی جاسکتی ہے؟ اس چیز کے ماننے میں مجھے تامل ہے، کیونکہ شرعاً اس کے لیے زنا اور سفاح وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اس قبیح فعل پر لفظ نکاح کا اطلاق جائز تسلیم کرنے کے لیے ان دلائل سے زیادہ قومی دلائل کی ضرورت ہے جو آپ نے نقل فرمائے ہیں۔

یہ بات بھی قابل تسلیم نہیں ہے کہ نکاح کا لفظ اصلاً فعل مباشرت کے لیے وضع ہوا تھا اور پھر مجازاً عقد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ فعل مباشرت کے لیے دنیا کی جس زبان میں بھی کوئی لفظ وضع ہوا ہے (یعنی جو استعارہ و کنایہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ صراحتہً اسی فعل کے لیے موضوع ہے) وہ قبیح و شنیع ہے اور کسی زبان میں بھی اس کو عقد کے لیے مجازاً استعمال نہیں کیا گیا ہے اردو زبان میں اس فعل کے لیے جو لفظ مستعمل ہے اسے آخر کون شخص بیاہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔

خود آپ کے پیش کردہ حوالوں سے بھی یہ ثابت ہے کہ لفظ نکاح کے اصل معنی ضم کے ہیں۔ اب کیا یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ یہ لفظ اصلاً مجرد فعل مباشرت کے لیے (بلالحاظ اس کے کہ عقد ہو یا نہ ہو) وضع ہوا تھا؟

بلاشبہ ایسی مثالیں لغت میں ملتی ہیں جن میں یہ لفظ محض مباشرت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس لفظ کا اصل مفہوم مباشرت ہے اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔

قرآن اور حدیث سے جو مثالیں آپ نے دی ہیں ان پر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جس کی دوسری تاویل ممکن نہ ہو۔ مثلاً میں زنا سے حرمت مصاہرت کا قائل ہوں۔ مگر میرے نزدیک قرآن کی آیت ولاتنکحو ماتلح آبائوکم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’جن عورتوں سے تمہارا باپ زنا کر چکا ہو ان سے تم نہ زنا کرو اور نہ عقد‘‘۔ بلکہ میں اس کا مطلب یہی لیتا ہوں کہ جن عورتوں سے باپ کا نکاح ہو چکا ہو، ان سے اولاد کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس سے بالتبع یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ باپ سے جس عورت کو بھی شہوانی تعلق کسی طرح ہو گیا ہے وہ بیٹے پر حرام ہے اور بیٹے کا تعلق جس عورت سے ہوگیا ہے وہ باپ پر حرام ہے۔ ناکح الید ملعون میں بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضورﷺ نے استعارہ کی زبان میں اسمنا بالید کرنے والے کو ایسے شخص سے تشبیہہ دی ہے جواپنے ہی ہاتھ سے بیاہ کر رہا ہے۔ ایسی ہی تاویل دوسرے نظائر کی بھی کی جاسکتی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۸، عدد۱۔ ستمبر ۱۹۶۲ء)