تعداد رکعات تراویح:

سوال: آپ کا ایک جواب دربارۂ تراویح ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور مورخہ ۶۲۔۳۔ ۷ میں شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسئلے کی کوئی عالمانہ تحقیق نہیں کی، بلکہ ایک چلتی سی بات سمجھوتہ کرانے والوں کی سی کردی ہے جس سے مسئلہ بجائے سلجھنے کے الجھ گیا ہے۔ ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں۔ دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بیس جاری کیں اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس پر اتفاق کیا اور بعد کے خلفاء نے اسی کو دستور بنایا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سنت نبوی آٹھ ہی ہے تو پھر حضرت عمرؓ نے بیس کہاں سے لے لیں اور کیونکر ان کو مقرر کردیا۔ تمام صحابہ کرامؓ اور خلفا نے سنت نبویﷺ کو نظرانداز کرکے بیس پر کیسے اجماع کرلیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ ایسی جسارت کریں۔ (مولانا یا تو آٹھ سنت نبوی نہیں یا پھر بیس پر اجماع نہیں)۔

جب سنت نبویﷺ آپ کے بقول آٹھ ہی رکعت ہیں تو بجائے یہ کہنے کے کہ حضرت عمرؓ نے بیس جاری کیں، کیا یہ کہنا زیادہ قرین قیاس نہیں کہ حضرت عمرؓ نے آٹھ ہی جاری کی تھیں کیونکہ اولاً تو مسنون تعداد آٹھ ہی ہے۔ ثانیاً اتباع سنت کا تقاضا یہی ہے کہ آٹھ ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ جیسا کہ موطا امام مالک کی سائب بن یزید کی روایت سے ظاہر ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

عَنِ السَّائِبِ بْنَ یَزِیْدَ اَنَّہٗ قَالَ اَمَرَ عُمَرُؓ اُبَیؓ بنِ کَعْبٍ وَتَمِیْمًا الدَّارِیِّ اَنْ یَّقُوْمَا النَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ بِاِ حْدَی عَشَر رَکَعَاتِ (الحدیث)

حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو رمضان شریف میں گیارہ رکعتیں پڑھایا کریں۔‘‘ (بحوالہ مشکوٰۃ)

قَالَ الْبَاجِیْ لَعَلَّ عُمَرَ اَخَذَ ذَالِکَ مِنْ صَلٰوۃِ النَّبِیّؐ۔

’’باجی نے کہا، حضرت عمرؓ نے آٹھ کی تعداد شاید صلوٰۃ رسولﷺ سے لے لی ہے۔‘‘(تنویر الحوالک)

عن مالک انہ الذی جمع علیہ الناسَ عمرُ بن الخطاب اَحَبُّ اِلَّی وھو احدی عشر رکعۃ وھی صلوٰۃ رسول اللہ قیل لہ احدی عشرۃ رکعۃ بالو تر؟ قال نعم وثلٰث عشرۃ قریب۔ قال ولا ادری من این احدث ھذا الرکوع الکثیر۔

امام مالکؒ نے فرمایا جتنی رکعتوں پر حضرت عمرؓ نے لوگوں کو جمع کیا وہ مجھے زیادہ پیاری ہیں اور وہ گیارہ رکعت ہی ہیں اور یہی رسول اللہﷺ کی نماز ہے۔ ان سے پوچھا گیا ’’گیارہ رکعت مع وتر؟‘‘ کہا ’’ہاں اور تیرہ رکعت کے قریب ہے اور کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ بہت سارے رکوع یعنی رکعتیں کہاں سے ایجاد کرلی گئی ہیں۔‘‘ (المصابیح فی صلوۃ التراویح للسیوطی)

آپ کا جواب دیکھتے ہوئے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب سنت نبویؐ آٹھ تھیں تو حضرت عمرؓ نے بیس رکعت کیوں جاری کیں؟ کیا ان کے نزدیک سنت رسولﷺ کی کوئی وقعت نہ تھی؟ یا سنت کی پیروی میں کمی کا احتمال تھا؟ یا بیس کے پڑھنے میں آٹھ کی نسبت امت کو آسانی تھی؟ یا بیس میں آٹھ کی نسبت خشوع و خضوع زیادہ ہوسکتا تھا؟ آخر کون سی ایسی مصلحت تھی، کون سا ایسا داعیہ تھا جو حضرت عمرؓ نے ایک آسان سنت نبویﷺ کا اہمال کرکے ایک مشکل کام کا امت کو حکم دیا؟

مذکورہ بالا حدیث جو سنداً بھی صحیح ہے اور متناً بھی، اتباع سنت کی آئینہ دار ہے اور صحاح سے ہم آہنگ بھی۔ آپ کے نزدیک احادیث کے ردوقبول اور اس کی ترجیح کے کون سے پیمانے ہیں جن سے آپ ناپ تول کرتے ہیں۔ مہربانی فرما کر واضح تو کریں تاکہ ہم بھی کوئی اندازہ کرسکیں۔

جواب: ’’ایشیا‘‘ اور ’’شہاب‘‘ میں میرے درس کے جو خلاصے شائع ہوئے ہیں ان کے متعلق بار بار خود ان دونوں اخبارات میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ وہ میرے اصل الفاظ میں نہیں ہوتے نہ میری پوری بات اس میں نقل کی جاتی ہے اور نہ وہ مجھے دکھا کر شائع کرتے ہیں مگر اس کے باوجود جو لوگ ان خلاصوں کو پڑھ کر میرے اوپر آئے دن سوالات کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی جواب دہی کرتے کرتے میں تنگ آگیا ہوں۔ میں ان خلاصوں کی اشاعت پر صرف اس لیے راضی ہوا تھا کہ ملک نصراللہ خان صاحب عزیز اور کوثر نیازی صاحب کے خیال میں اس طرح میرے درس کا کچھ نہ کچھ فائدہ عام ناظرین کو بھی حاصل ہوتا رہے گا لیکن اگر ان پر سوالات کی پیدائش اسی رفتار سے جاری رہی جیسی کہ اب تک رہی ہے تو مجھے مجبوراً ان دونوں حضرات سے یہ گزارش کرنی پڑے گی کہ اس سلسلے کو روک دیں۔ آخر میں دوسروں کی مرتب کردہ رپورٹوں کی جواب دہی کہاں تک کرتا رہوں۔

تراویح کی رکعات کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن پر مدت دراز کے جھگڑوں اور مناظروں نے فریقین کو بے انتہا ذکی الحس بنادیا ہے۔ اسی وجہ سے آٹھ رکعت یا بیس رکعت کا لفظ کسی کی زبان سے نکلتے ہی کوئی ایک گروہ اس پر آستینیں چڑھالیتا ہے اور چیلنج بازی شروع کردیا ہے۔ مذکورہ بالا سوال اسی کیفیت کا نتیجہ ہے حالانکہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے جس پر اتنے جھگڑوں کی کوئی حاجت ہو۔ اگر کسی کے نزدیک آٹھ رکعت ہی ثابت ہوں تو وہ آٹھ پڑھے اور خواہ مخواہ بیس رکعت کو بدعت قرار دینے پر اپنا زور صرف نہ کرے اور اگر کسی کے نزدیک 20 رکعت ہی ثابت ہوں تو وہ بیس پڑھے اور آٹھ رکعت پڑھنے والوں کی مخالفت میں وقت ضائع نہ کرتا رہے۔ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو اس سے بدرجہا زیادہ اہم مسائل درپیش ہیں جو ہماری توجہ اور محنت اور اوقات اور اموال کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر ان مسائل پر جھگڑے اور بحثیں کرنے میں سارا زور لگادینا خدا کے دین کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔

محترم سائل نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آٹھ رکعت سے زائد پڑھنا خلاف سنت نبویﷺ ہے اور اس دعویٰ کی بنیاد انہوں نے اس بات پر رکھی ہے کہ نبیﷺ نے تراویح میں آٹھ ہی رکعت پڑھی ہیں۔ حالانکہ اگر اس بنیاد پر آٹھ رکعت سے زائد پڑھنے والے کو خلاف سنت کہنا درست ہو تو پھر تمام عمر میں تراویح صرف تین مرتبہ ہی جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے اور اس سے زائد پڑھنے کو بھی خلاف سنت قرار دیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ حضورﷺ نے باجماعت تراویح صرف اسی حد تک ثابت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر معاملے میں حضرت عمرؓ کا اجتہاد کہ ہر رمضان میں بالالتزام تمام مساجد میں نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے، آپ نے قبول فرمالیا اور اسے خلاف سنت قرار نہیں دیا تو آخر تراویح کے لیے 20 رکعت مقرر کرنے کے بارے میں ان کا اجتہاد کس دلیل سے خلاف سنت ہوگیا؟

سائل فاضل کی یہ کوشش کہ حضرت عمرؓ نے 20 رکعات کے ثبوت ہی میں سرے سے شک پیدا کردیا جائے اور حقیقت مکابرہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ بات قریب قریب یقینی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کے لیے 20 رکعات مقرر کی تھیں۔ صحابہ کرامؓ نے اسے قبول کیا اور ان کے بعد بھی خلفا اور صحابہ کرامؓ کا یہی عمل رہا۔ ترمذی کا بیان ہے:

وَاَکْثَرُ اَھْلِ الْعِلْمِ عَلٰی مَارَوٰی عَنْ عُمَرَ وَ عَلیٍّ وَ غَیْرِ ھِمَا مِنَ اَصْحَابِ النَّبِیّﷺ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃٗ۔

’’اکثر اہل علم اسی مسلک پر ہیں جو حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ سے مروی ہے۔ یعنی 20 رکعت۔‘‘

محمد بن نصر المروزی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہی عمل نقل کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اسے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور متعدد دوسرے صحابہ کا اثر بتایا ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ جمہور علماء بیس رکعت ہی کے قائل ہیں اور صحابہ سے اس بارے میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہوا ہے۔ المغنی میں ابن قدامہ لکھتے ہیں:

’’احمد بن حنبل کے نزدیک تراویح کے معاملے میں بیس رکعت ہی کا مسلک مرجع ہے اور اسی کے قائل سفیان سوری اور ابوحنیفہ اور شافعی ہیں مگر امام مالک 36 رکعت کے قائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ قدیم سے اسی پر عمل چلا آرہا ہے… اس کے مقابلے میں ہمارا استدلال یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب متفرق طور پر تراویح پڑھنے والے تمام لوگوں کو ابن بن کعبؓ کی امامت میں جمع کیا تو حضرت ابی بیس رکعتیں پڑھاتے تھے… اور حضرت علیؓ سے یہی ثابت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھانے پر مامور کیا تھا۔ یہ عمل قریب قریب اجماع کا ہم معنی ہے… اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ بعد میں تمام اہل مدینہ 36 رکعت تراویح پڑھنے لگے تھے تب بھی جو کچھ حضرت عمرؓ نے کیا تھا اور جس پر صحابہؓ ان کے زمانے میں متفق ہوگئے تھے۔ اسی کی پیروی کرنا بہتر ہے۔ (جلد اول، صفحہ ۷۹۸۔ ۷۹۹)

اس کے مقابلے میں محترم سائل کا تمام تر اعتماد صرف اس روایت پر ہے جو امام مالک نے موطا میں سائب بن یزید سے نقل کی ہے اور جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے وتر سمیت گیارہ رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں تین باتیں قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ اسی موطا میں امام مالک بن یزید بن رومان کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عمرؓ نے وتر سمیت 23 رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ مگر محترم سائل نے اس روایت کو نظرانداز کردیا۔ دوم یہ کہ وہی سائب بن یزید جن سے امام مالک گیارہ رکعت کی روایت نقل کرتے ہیں، ان سے ایک دوسری روایت بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ 23 رکعت کے حق میں نقل کی ہے اور اس سے گمان ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے پہلے اگر گیارہ رکعتیں مقرر کی بھی تھیں تو بعد میں ان کو 23 رکعت سے بدل دیا ہوگا۔ سوم یہ کہ امام مالک خود ان دونوں روایتوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ 36 رکعتوں کے حق میں اس بنا پر فیصلہ دیتے ہیں کہ مدینے میں ایک صدی سے زیادہ مدت سے تین رکعت وتر اور 36 رکعت تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج تھا۔ سیوطی المصابیح میں کچھ چاہیں کہیں مگر فقہائے مالکیہ اپنے امام کا یہی قول صحیح مانتے ہیں۔

ان امور پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اگرچہ نبیﷺ نے آٹھ رکعتیں ہی پڑھی ہیں لیکن صحابہ کرامؓ اور تابعین نے بالعموم حضورﷺ کے اس فعل کا مطلب یہ نہیں لیا ہے کہ آٹھ رکعت پڑھنا ہی سنت ہے اور اس سے زائد پڑھنا خلاف سنت یا بدعت ہے۔ آخر یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین اور آئمہ مجتہدین سنت اور بدعت کے درمیان تمیز کرنے کی اہلیت سے اس درجہ محروم تھے یا جان بوجھ کر وہ سنت کو چھوڑ کر ایک بدعت کو اختیار کرسکتے تھے؟

بہرحال اگر کوئی شخص حضورﷺ کے اس فعل کو اس معنی میں لیتا ہو تو آپؐ کا منشاء آٹھ رکعت ہی کو سنت کی حیثیت سے جاری کرنے کا تھا تو وہ شوق سے اس پر عمل کریں اور جو اس معاملے میں اس کے ہم خیال ہوں وہ اس کی پیروی کریں لیکن بیس رکعت کے دلائل اتنے کمزور نہیں ہیں کہ اسے خلاف سنت قرار دینا اتنا آسان جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ مئی ۱۹۶۲ء)