اقامتِ دین کے بارے میں چند ذہنی اشکالات

سوال: رسول اللہﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ان کے بارے میں بِلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔ لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافتِ راشدہ کا نظام جلد درہم برہم ہو گیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے جن کا اسلامی تحریک کے ارتقاء پر ناخوشگوار اثر پڑا۔ ان حالات سے پیدا شدہ چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:

ایک مصالحانہ تجویز

سوال: پاکستان دستور سازی کے نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کا ایک خاص طبقہ دستور اسلامی سے گلوخلاصی حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ ایسے حالات میں جمات اسلامی اور علمائے کرام کی باہمی چپقلش افسوسناک ہے۔ جماعت اسلامی جس کے بنیادی مقاصد میں دستور اسلامی کا عنوان ابھرا ہوا رکھا گیا ہے، بھی اس اختلاف کے میدان میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کر کے خم ٹھونک کر ڈٹ گئی ہے۔ کیا اس معاملہ کو اس طرح نہیں سلجھایا جاسکتا کہ چند نامور علماء کو (اس مقام پر مکتوب نگار نے پانچ بزرگوں کے نام دیے ہیں، ہم نے مصلحتاً ناموں کی اس فہرست کو حذف کر کے چند نامور علماء کے الفاظ لکھ دیے ہیں) ثالث تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی فریق ثانی کو دعوت دے کہ وہ جماعت اسلامی کی تمام قابل اعتراض عبارتوں کو ان حضرات کی خدمت میں پیش کر دے ان علماء کرام کی غیر جانبداری، علم و تقویٰ اور پرہیز گاری شک و شبہ سے بالا ہے (کمال یہ ہے کہ ان پانچ غیر جانبدار حضرات میں سے ایک گزشتہ انتخابات پنجاب میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں سرگرم رہ چکے ہیں اور وہ بزرگ ان دنوں ’’جہاد‘‘ میں مصروف ہیں) اگر کوئی عبارت قابل اعتراض نہ ہو تو مولانا مودودی کی عزت میں یقینا اضافہ ہوگا۔ اور اگر علمائے کرام ان عبارتوں کو قابل اعتراض قرار دیں تو مولانا مودودی صاحب ان سے دست برداری کا اعلان فرما دیں۔ یہ تمام مراحل اس صورت میں طے ہو سکتے ہیں کہ اخلاص اور آخرت مطلوب ہو۔

بے بنیاد اندیشے

سوال: حال ہی میں (لاہور کا ایک اخبار) کے ذریعہ علماء کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں ان تحریروں سے گمراہ نہیں ہو سکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقابلہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلماء پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کر لی جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے‘‘۔

اللہ کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال: میں ایک سخت کشمکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میں جماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دور رہنے پر مجبور ہوں۔ والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر تجارتی کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط و تفریط سے بچ سکوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے توپھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں اور میری طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تواسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔

طریق انتخاب

سوال: مجھے آپ کی خدمت میں ایک وضاحت پیش کرنا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی ذاتی حیثیت میں تجربۃً دس سالوں کے لیے مخلوط انتخاب کی حمایت کی تھی۔ اپنے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مخلوط انتخاب کی مخالفت میں سب سے اونچی آواز جماعت اسلامی کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے۔ پھر میں نے کم و بیش مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے۔ ’’جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے میرے قلب و جگر میں انتہائی احترام و عقیدت کا سرمایہ ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت نے پاکستان کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی اور اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا اس صورت میں متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتی؟‘‘ اس کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے گلہ کیا میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک دلیل تعمیر کر رہا تھا جس سے مقصود جماعت اسلامی پر حملہ کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے نقطہ نگاہ کے جواز میں وزن پیدا کرنا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں بھی اس صراحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمی رفع ہو جائے‘‘۔

جماعت کا موقف اور طریقِ کار

سوال: اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کر رہی ہے اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کر رکھا ہے اور اسی وابستگی کے جذبہ کے تحت اپنی ناقص آراء پیش کر رہا ہوں۔

پاکستان میں دستور و انتخاب کا مسئلہ ازسرنو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ و فیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ کتاب و سنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراء و نفاذ بھی موجودہ دستور کی رو سے لیجسلیچر اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آراء کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں، سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جواسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہو جائیں اور بہت سے وہ کام جنہیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا مباحات کی فہرست میں داخل کر دیے جائیں۔ موجودہ دستور نے قرآن و سنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آراء کی منظوری و تعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضامندی اور دستخطوں کا پابند بنا دیا ہے اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح و توضیح کا محتاج بنا دیا ہے۔ حالانکہ دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارات، ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم و تقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے، ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔

کیا اقامت دین فرض عین ہے؟

سوال: خاکسار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتاہوں کیونکہ ان میں سے بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس عرصہ میں میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غوروخوص کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دباؤ کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن و سنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر اس جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل و ہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہواس کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں لائق عفوودرگزر ہے لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر کردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اللہ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے مواخذہ ہوگا۔اللہ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔

تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون

سوال: ایک بات عرصہ سے میرے ذہن میں گشت کر رہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ میں اللہ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم اور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کر دے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے، جن کے قلب و دماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے۔ امت کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے، تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں، تعمیری انقلاب بھی برپا ہو سکتا ہے اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یکجائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں۔

امارتِ شرعیہ بِہار کا سوالنامہ اور اس کاجواب

سوال: دارالافتا امارتِ شرعیہ بہار وارڈیسہ (ہند) کے پاس جماعت اسلامی سے متعلق سوالات آتے رہتے ہیں جن میں اس طرف زیادتی ہے۔ سوالات میں زیادہ جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت کے متعلق دریافت کیاجاتا ہے۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے براہ راست ذیل کے دفعات (جن کے متعلق سوالات آتے ہیں) سے متعلق استفسار کرایا جائے اور آپ حضرات سے ان کے جوابات طلب کر لیے جائیں تاکہ ان جوابات کی روشنی میں ہمیں جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں اور ہمدردوں کی دینی حیثیت کے متعلق رائے قائم کرنے میں اور شرعی حکم بتلانے میں سہولت ہو۔ ہمارے خیال میں اس طرح اطمینان حاصل کیے بغیر کوئی شرعی حکم لگانا احتیاط کے خلاف ہوگا۔ آپ سے عرض ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب پورے اختصار کے ساتھ حتی الامکان محض نفی و اثبات میں اس طرح تحریر فرمائیں کہ ہمیں واضح طور پر معلوم ہو جائے کہ اس مسئلہ میں جماعت اور اس کے ذمہ داروں کا مسلک اور رائے یہ ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض دفعہ تطویل سے بات واضح ہو جانے کے بجائے اور مشتبہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا مقصد آپ پر کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے بلکہ جماعت کے متعلق مندرجہ ذیل مسائل میں تشفی کرنا ہے، اور جماعت اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت بتلانے میں اپنے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمدرد کے سوالات سمجھ کر جواب تحریر فرمائیں گے۔