اسلامی ریاست میں شاتم رسولؐ ذمی کی حیثیت

سوال: راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح و جنگ کے باب میں ص ۲۴۰ ضمن (۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:

’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا، اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے‘‘۔

اسلامی جمہوریت اور ملازمین حکومت کی حیثیت

سوال: اگست ۱۹۵۵ء کے ترجمان میں اشارات کے زیر عنوان آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے مجھے جزوی اختلاف ہے۔ میرے شبہات درج ذیل ہیں۔

۱۔ آپ نے جمہوریت کو قرآن و سنت کا منشا قرار دیا ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ فی زمانہ جمہوریت ایک مخصوص طرزِ حکومت کا نام ہے جس کی بناء عوام کی غیر محدود حاکمیت کے تصور پر قائم ہے جسے ہم کسی طرح بھی کتاب و سنت کے منشاء کے مطابق قرار نہیں دے سکتے۔ آپ جمہوریت کے لفظ کو اس کے معروف معنی سے ہٹ کر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے خود اسلامی طرزِ حکومت کے لیے تھیوڈیما کریسی کی اصطلاح وضع کی تھی، اب اس اصطلاح کو چھوڑ کر آپ ڈیمو کریسی کی طرف کیوں رجعت کر رہے ہیں۔

اسلامی نظریہ جہاد سے متعلق ایک شبہ

سوال: آپ نے ایک مضمون ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جو کہ تفہیمات حصہ اول اور ’’حقیقت جہاد‘‘ میں چھپ چکا ہے۔ اس مضمون میں ایک جگہ پر آپ نے ذیل کی عبارت تحریر کی ہے۔ ’’مسلم پارٹی کے لیے یہ ضرورت ہے کہ کسی ایک خطہ میں اسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں اس نظام کو اطراف عالم میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہﷺ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب، جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی، سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی، مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں، بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا‘‘۔

دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

سوال: میرے دو سوال حاضر خدمت ہیں امید ہے کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔

۱۔ دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟ دارالکفر اور دارالسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں؟ مجھے اس مسئلے پر تردد مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

سوال: مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی تصنیف ’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور انہوں نے وعدہ فرما لیا تھا کہ وہ آئندہ ایڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرما دیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت کی مزید وضاحت

سوال: بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ عریضہ ارسال خدمت کروں۔ چند ضروری امور کے بارے میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر فرصت نہ ملی کہ اطمینان خاطر کے ساتھ لکھ سکوں۔ ایک نئی بات کی وجہ سے اب فوراً خط لکھا۔ پرسوں تازہ پرچہ ترجمان القرآن کاموصول ہوا۔ میرا معمول یہ ہے کہ رسائل وصول کرتے ہی پہلی نشست میں تقریباً سارا رسالہ ختم کر دیتا ہوں۔ اس دفعہ ’’رسائل و مسائل‘‘ میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کو پڑھ کر طبیعت متاثر ہوئی اور دل کا شدید تقاضا ہوا کہ اس بارے میں آپ کی خدمت میں ضرور عریضہ لکھوں اور اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔

طریقِ انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم

سوال: طریقِ انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں۔ میں ان کا خلاصہ پیش کر کے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے۔

۱۔ جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول و احکام کا تقاضا نہ رہے گا۔

اسلامی ریاست اور خلافت کے متعلق چند سوالات

سوال: یہ ایک سوالنامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں۔

۱۔ کیا اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

۲۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔

۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

دورِ جدید کی رہنما قوت، اسلام یا عیسائیت؟

سوال: بیسوی صدی کے اس مہذب ترقی یافتہ دور کی رہنمائی مذہبی نقطہ نظر سے اسلام کر سکتا ہے یا عیسائیت؟ کیا انسان کو سیکولرازم یا دہریت روحانی و مادی ترقی کی معراج نصیب کرا سکتی ہے؟ بالخصوص کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟

الخلافت یا الحکومت

سوال: اگر بیسوی صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟