دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

سوال: میرے دو سوال حاضر خدمت ہیں امید ہے کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔

۱۔ دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟ دارالکفر اور دارالسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں؟ مجھے اس مسئلے پر تردد مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے۔

’’اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی و دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب(شاہ عبدالعزیز صاحب) کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔ (’نقش حیات‘ جلد دوم، ص ۱۱)

آپ اس مسئلے میں میری راہنمائی فرمائیں۔

۲۔ آیت وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ میں لفظ لعل آیا ہے جو شک کا کلمہ ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا قطعی علم ہے۔ پھر اس کی کیا توجیہہ کی جائے گی؟

جواب: آپ نے اپنا پہلا سوال مجھ سے کرنے کے بجائے مولانا حسین احمد صاحب ہی سے کیا ہوتا تو بہتر تھا۔ آپ ان سے پوچھیے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت میں مسلمان جس درجہ شریک ہیں اور ان کے مذہبی و دینی شعائر کا جیسا کچھ احترام کیا جاتا ہے، اس سے تو بدرجہا زیادہ وہ انگریزی دور میں شریک حکومت تھے اور اس سے بہت زیادہ ان کے شعائر مذہبی کا احترام انگریزی دور میں ہو رہا تھا۔ اگر کسی کو اس سے انکار ہو تو انگریزی دور کے مسلم وزراء اور ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ممبروں اور فوجی اور سول محکموں کے مسلم ملازموں کی تعداد کا موجودہ بھارتی حکومت کے ہر شعبے میں حصہ پانے والے مسلمانوں کی تعداد سے مقابلہ کر کے ہر وقت اسے قائل کیا جاسکتا ہے۔ رہا شعائر مذہبی کا احترام تو موجودہ ہندو اقتدار کے دور میں مساجد کی جتنی بے حرمتی ہوئی ہے، اس کا مقابلہ انگریزی دور سے کر کے دیکھ لیا جائے۔ اس دور میں مسلمانوں کی جان و مال اور ان کی عورتوں کی عصمت پر جتنے حملے ہوئے ہیں ان کا مقابلہ انگریزی دور کے ایسے ہی حملوں سے کر لیا جائے۔ اور اس دور میں مسلمانوں کے پرسنل لاء کا جو حشر ہوا ہے اس کے مقابلے میں دیکھ لیاجائے کہ ڈیڑھ سو برس کے انگریزی دور میں اس پرسنل لاء کا کیا حال رہا ہے۔ اب اگر ’’حضرت شاہ صاحب کی تعریف کے مطابق موجودہ بھارت بے شبہ دارالاسلام ہے‘‘ تو انگریزی دور کا ہندوستان کیوں نہ تھا؟ آپ مولانا سے صاف صاف وہ وجہ فرق و امتیاز پوچھیں جس کی بناء پر ان کو انگریزی دور کا ہندوستان تو دارالکفر نظر آتا تھا اور موجودہ ہندوستان دارالاسلام نظر آتا ہے۔ اس سوال کا جو جواب مولانا دیں اس سے مجھے بھی مطلع فرمایئے تاکہ میں بھی اس نئی فقہی تحقیق سے فائدہ اٹھا سکوں۔ میں یہ سمجھتا چاہتا ہوں کہ موجودہ بھارت بھی اگر دارالاسلام ہے تو پھر دنیا میں کوئی ملک دارالکفر بھی سکتا ہے یا نہیں؟

مولانا حسین احمد صاحب کے معتقدین چاہے کتنا ہی برا مانیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آج مولانا کی قیادت میں دیوبند اس مقام سے بھی بدرجہا زیادہ فروتر مقام پر کھڑا ہے جہاں انگریزی دورِ اقتدار کے آغاز میں علی گڑھ کھڑا ہوا تھا۔ سرسید اور چراغ علی اور محسن الملک و غیرہم نے انگریزی اقتدار کے ساتھ مصالحت کرنے میں اس تنزل کا عشر عشیر بھی اختیار نہیں کیا تھا جو اب مولانا حسین احمد اور ان کے ہم خیال علماء نے ہندو اقتدار کے ساتھ مصالحت میں اختیار کیا ہے۔ ان نیچریوں نے اسلامی تصورات کو مسخ کرنے میں وہ جسارت کبھی نہ دکھائی تھی جس کا اظہار اب یہ سکہ بند علماء کر رہے ہیں اور غضب یہ ہے کہ اپنے ساتھ خاندان شاہ ولی اللہ اور اپنے دوسرے اکابر بھی لے ڈوبنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے تقدس پر آنچ نہ آنے دیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جن امور میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار تفویض کیا ہے، ان میں اللہ تعالیٰ انسان کی اصلاح کے لیے جو تدبیر اختیار فرماتا ہے۔ اس سے نتیجہ مطلوب کا برآمد ہونا اس پر موقوف ہے کہ انسان اپنے اختیار کو صحیح استعمال کرے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ اسے ایسا کرنے پرمجبور نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ اس نتیجہ مطلوب کے برآمد کرنے کا ذکر لعل کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اس نتیجے کا برآمد ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ اگر انسان صحیح طرزِ فکر اختیار کرے تب ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نتیجہ رونما ہو۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الآخر ۱۳۷۶ھ۔ مارچ ۱۹۵۷ء)