اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

سوال: مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی تصنیف ’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور انہوں نے وعدہ فرما لیا تھا کہ وہ آئندہ ایڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرما دیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے۔

’’یہ اعتراض کہ حضرت سید صاحبؒ کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کا نکالنے والا میں قرار دیتا ہوں، بالکل خلاف واقعہ اور تصریحات سے روگردانی ہے۔ بہرحال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے، دوسری توجیہہ اس میں نہیں ہو سکتی تو وہ غلط ہے۔ ہندوستان کی حکومت کے شرمناک کارناموں سے مجھے انکار نہیں، پھر میں کس طرح اس کو دارالاسلام قرار دے سکتا ہوں؟ لیکن ’’فرقہ وارانہ حکومت اور سیکولر اسٹیٹ کے درمیان بھی تو ایسی صورتیں ہیں جن کو اسلام قبول کر سکتا ہے۔ مغلیہ حکومت کو دیکھیے اور غور فرمایئے‘‘۔

مولانا مرحوم کے جواب سے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ حضرت مولانا دارالکفر کو دارالاسلام نہیں سمجھتے، مگر اس کا افسوس بھی ہوا کہ میں ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں پاتا۔ میں اس سلسلہ میں ابھی مزید خط و کتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں‘‘۔

جواب: یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ مولانا حسین احمد صاحب مرحوم کم ازکم ہندوستان کی موجودہ حکومت کو تو دارالاسلام قرار نہیں دیتے۔ اور وہاں کی موجودہ حکومت کے ’’شرمناک‘‘ کاموں سے انہوں نے اظہارِ برات فرمایا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے بھی محسوس کیا ہے، ان کی کتاب ’’نقشِ حیات‘‘ کی ایک دو نہیں متعدد عبارتیں ایک بہت ہی گمراہ کن نظریہ پیش کرتی ہیں اس لیے ایک مجمل تردید یا استدراک کے بجائے اس نظریہ کی مفصل تردید اور اس سے کلی برات کی ضرورت ہے۔ مولانا مرحوم حضرت سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ کے جہاد کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بس ہندوستان اس بدیشی قوم (انگریز) کے مظالم سے پاک ہو جائے اور ’’اس کے بعد ہندو اور مسلمان مل کر بادشاہت کے لیے جس کو مناسب سمجھیں منتخب کریں‘‘۔ حالانکہ اس کے ثبوت میں حضرت شہید کے جس خط کو وہ پیش کرتے ہیں وہ ہندو مسلمانوں کی مشترک حکومت کے تخیل سے بالکل خالی ہے۔ پھر وہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی عبارات کا، جنہیں خود انہوں نے نقل کیا ہے، بالکل الٹا مطلب نکالتے ہیں کہ ’’اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی و دینی شعار کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا۔ اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں‘‘۔ اس پر بھی وہ بس نہیں کرتے بلکہ یہ عجیب و غریب دعویٰ کرتے ہیں کہ سلطنتِ مغلیہ کے دورِ زوال میں جن علماء نے بھی اصلاح احوال کی کوشش کی ’’ان کا مقصد ملک کی خوشحالی، امن و امان، سکون واطمینان، ظلم و جور کی بیخ کنی، اور خلقِ خدا کی عام رفاہیت و بہبودی تھا، ان کواس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ حکومت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی‘‘۔ اس سے آگے بڑھ کر انتہائی گمراہ کن بات جو انہوں نے لکھی ہے اور غضب یہ ہے کہ حضرت سید احمد شہید کی طرف بالکل غلط طور پر منسوب کر کے لکھی ہے، وہ یہ ہے:

’’اعلاء کلمتہ اللہ کا ذریعہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایک ’’فرقہ وار‘‘ گورنمنٹ قائم کی جائے اور خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے، بلکہ اس کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ برادران وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کر کے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے۔

(’نقشِ حیات‘ جلد دوم، ص ۱۲)

یہ عبارت سرے سے اسلامی حکومت کے تخیل ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ اور ایک ایسا نظریہ پیش کرتی ہے جو اسلامی نظریہ ریاست کا بالکل ضد ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جہاں مسلم اور غیر مسلم ملے جلے آباد ہوں وہاں اسلام کی حکومت قائم کرنا اگر غلط نہیں تو مرجوح طریقہ ضرور ہے۔ ایسی حکومت کو مولانا اسلامی حکومت کہنے کے بجائے بار بار ایک ’فرقہ وار حکومت‘‘ کے نام سے یاد فرماتے ہیں، اور برادران وطن کو محکوم بنا کر خود حاکم بن جانا ان کی نگاہ میں اگر زیادتی نہیں تو کم ازکم نامناسب تو ہے ہی۔ وہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے افضل اور اولیٰ طریقہ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم کی مشترک حکومت بنائی جائے، جو بہرحال اسلامی حکومت نہ ہوگی، اور صرف فضائی اخلاق سے غیر مسلموں کا دل موہنے کی کوشش کی جائے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کی پوزیشن پھر کیا ہے، جس میں غیر مسلموں کی آبادی ۸۰ ، ۹۰ فیصدی سے کم نہ تھی، مگر اس کے باوجود ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کر کے مسلمان خود حاکم بن بیٹھے تھے، اور غیر مسلموں کو سیاسی اقتدار میں شریک کرنے کے بجائے اپنا محکوم انہوں نے بنا لیا تھا؟ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی زد خود نبیﷺ پر بھی پڑتی ہے جنہوں نے ’’برادران وطن‘‘ کو اقتدار میں شریک نہیں کیا تھا اور اسلام کی خالص ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کر دی تھی۔ کیا مولانا یہ فرمائیں گے کہ حضورؐ نے اعلاء کلمۃ اللہ کا بہتر اورزیادہ موثر طریقہ چھوڑ کر ایک کمتر درجہ کا طریقہ اختیار فرمایا؟ یہی وہ باتیں ہیں جن کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ ہندو اقتدار کی آمد پر اس کے ساتھ مصالحت کرنے میں مولانا حسین احمد صاحب مرحوم جتنی دور چلے گئے ہیں اتنی دور تو انگریزی اقتدار کے ساتھ مصالحت کرنے میں سرسید اور ان کے ساتھی بھی نہ گئے تھے۔ یہ خیالات تو اسلام کے متعلق مسلمانوں کے اصولی نقطہ نظر تک کو بدل ڈالیں گے اور ایک مسلمان ان کو قبول کرنے کے بعد رسولؐ اور اصحاب رسول صلوٰت اللہ علیہم اجمعین کے مقابلے میں ہندوستانی سیکولرازم کے بانیوں کو زیادہ انصاف پسند سمجھنے لگے گا۔

مولانا مرحوم کی یہ مداہست میری نگاہ میں ایک بہت بڑا مظلمہ ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں اس پر معاف فرمائے اور عامۃ المسلمین کو ایسے غلط نظریات کے برے اثرات سے بچائے۔

(ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۷ھ۔ جولائی ۱۹۵۸ء)