طریق انتخاب

سوال: مجھے آپ کی خدمت میں ایک وضاحت پیش کرنا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی ذاتی حیثیت میں تجربۃً دس سالوں کے لیے مخلوط انتخاب کی حمایت کی تھی۔ اپنے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مخلوط انتخاب کی مخالفت میں سب سے اونچی آواز جماعت اسلامی کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے۔ پھر میں نے کم و بیش مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے۔ ’’جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے میرے قلب و جگر میں انتہائی احترام و عقیدت کا سرمایہ ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت نے پاکستان کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی اور اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا اس صورت میں متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتی؟‘‘ اس کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے گلہ کیا میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک دلیل تعمیر کر رہا تھا جس سے مقصود جماعت اسلامی پر حملہ کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے نقطہ نگاہ کے جواز میں وزن پیدا کرنا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں بھی اس صراحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمی رفع ہو جائے‘‘۔

جواب: میں نے اخبارات میں آپ کی تقریر کی رپورٹ تو پڑھی تھی لیکن میرے دل میں کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ سخت دوسرے کہتے اور لکھتے رہے ہیں اور مجھے کبھی کسی سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ اس لیے آپ کی وضاحت میرے لیے تو غیر ضروری ہی تھی۔ تاہم میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے بطور خود اس کی ضرورت محسوس کی۔

البتہ مخلوط انتخاب کے حق میں استدلال کرتے ہوئے جو بات آپ نے جماعت اسلامی کے بارے میں کہی ہے وہ بجائے خود صحیح نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے بھی جماعت کی پوزیشن سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اب بھی آپ اسے صحیح طور پر نہیں سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں جماعت کی عدم شرکت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جماعت تقسیم کی مخالف تھی یامتحدہ ہندوستان کی حامی تھی، ایک بہت ہی غلط استنتاج ہے۔ اگر آپ میری اس زمانے کی تحریریں تفصیل کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ میں اس رہنمائی اور اس طریق کار سے غیر مطمئن تھا جو مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک طرف مسلم نیشنلسٹ گروہ اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم گروہ پیش کر رہا تھا۔ دونوں کے متعلق میرے اس وقت کے جو اندازے تھے بعد میں وہ لفظ بلفظ پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اسی عدم اطمینان کی وجہ سے میں ان دونوں سے الگ رہا اور جو کچھ میرے نزدیک درست تھا اس کے لیے کام کرتا رہا۔ تقسیم ملک کی مخالفت اگر میں نے کسی روز کی ہو تو آپ اس کا حوالہ دیں۔ یا متحدہ قومیت یا متحدہ ہندوستان کی تائید میں کبھی میں نے کوئی بات کہی ہو تو اس کی نشاندہی بھی آپ فرما دیں۔ ایسی کسی چیز کی غیر موجودگی میں مجھ سے یا جماعت اسلامی سے یہ سوال کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اگر ہندوستان متحد رہتا تو کیا تم جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے۔

اس کے علاوہ اس معاملے میں ایک پہلو اور بھی ہے جسے آپ نظرانداز کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ غیر اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون یا اس میں کسی کی حصہ داری کو جماعت اسلامی اصولاً غلط کہتی ہے۔ اسی وجہ سے تقسیم سے قبل کے انتخاب میں ہم نے سرے سے دلچسپی ہی نہیں لی۔ اگر خدانخواستہ ہندوستان متحد رہتا اور اس میں سیکولر نظام قائم ہوتا تو اس کے لادینی نظامِ حکومت کے انتخابات میں حصہ لینے کے سرے سے ہم قائل ہی نہ ہوتے، پھر جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا سوال اس نظام میں ہمارے لیے کیسے پیدا ہوتا؟ جماعت اسلامی اس طرح کے لادینی نظام میں کام کرنے کا جو نقشہ اپنے سامنے رکھتی تھی اسے جماعت کے لٹریچر میں وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا گیا تھا۔ آپ ہمارے اس طریق کار کو غلط سمجھنے اور کہنے کا حق رکھتے ہیں، مگر ہمارے حقیقی منشا کے خلاف ہماری باتوں کو یہ معنی پہنانا کہ ہم متحدہ ہندوستان کے طالب اور تقسیم ملک کے مخالف تھے، ایک ایسی زیادتی ہے جس کی ہم کم ازکم آپ جیسے معقول آدمیوں سے توقع نہیں رکھتے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول ۱۳۷۶ھ۔ نومبر ۱۹۵۶ء)