نظریہ نسخ آیت مع بقائے حکم پر استدراک:

رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۵ء کے عنوان ’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت آیت رجم اور نظریہ ’’نسخ آیت مع بقائے حکم‘‘ کے متعلق جو جواب تحریر کیا گیا تھا، اسے دیکھ کر ایک صاحب نے ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا تھا، جو ان کے حسب ارشاد شائع کیا جا رہا ہے:

متعہ کی بحث:

سوال: جناب نے سورہ مومنون کی تفسیر کرتے ہوئے متعہ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر چند صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کر کے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب حضرات اضطراری صورت میں متعہ کے قائل تھے۔ دیگر تقریباً اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے حلت متعہ سے رجوع کر لیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ حضرت ابن عباس ؓ کا رجوع آپ کی نظر سے کیوں مخفی رہا ۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کرام ؓ اور تابعین کا حرمت متعہ پر کامل اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے بھی متعہ کو حرام مانا ہے۔ لیکن اضطرار کی ایک فرضی اور خیالی صورت تحریر فرما کر اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنی رائے پر نظر ثانی کریں ہے ۔ یہ اہل سنت کا متفقہ مسئلہ ہے۔

تفہیم القرآن پر چند اعتراضات

سوال: میں قرآن شریف کا چند تفسیروں کے ذریعے مطالعہ کر رہا ہوں۔ پہلے جناب کی تفسیر تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتا ہوں، پھر تفسیر جلالین، تفسیر خازن اور دیگر مختلف تفاسیر کا بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ بعض مقامات پر آپ قدیم مفسرین سے کافی اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے طبیعت میں شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ میں چند تعارفی مقامات پیش کرتا ہوں۔ توقع ہے کہ آپ تسلی بخش جواب تحریر فرمائیں گے۔

چند مزیداعتراضات:

ایک صاحب نے ایک طویل مکتوب کی شکل میں مدیر ’’ترجمان‘‘ کی بعض تحریروں پر اعتراضات وارد کیے ہیں۔ مدیر ’’ترجمان‘‘ نے ان کا مفصل جواب دیا ہے، افادہ عام کی خاطر سوالات و جوابات کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

راقم عریضہ کافی عرصے سے آپ کی تصنیفات کا یک جہتی سے مطالعہ کر رہا ہے۔ چند شبہات ایسے واقع ہوئے کہ باوجود کافی حسن ظن کے دل میں بے حد خلجان پیدا کر رہے ہیں۔ عمائدین جماعت سے بالمشافہ کئی مرتبہ گفتگو ہوئی، لیکن بجائے ازالہ، اضافہ ہوتا رہا۔ انہی مخلصین کے مشورے سے یہ طے پایا کہ براہ راست جناب سے استفادہ کیا جائے، لہٰذا جناب کو تکلیف دی جاتی ہے کہ مسائل مندرجہ ذیل کا تشفی جواب تحریر فرما کر ممنون فرمائیں۔ اگر مناسب خیال فرمائیں تو ترجمان میں شائع فرما دیں، تاکہ فائدہ عام ہو جائے۔

تعدد ازواج اور لونڈیاں

سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النساء 3:4)

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟

’’سبع سماوات‘‘ اور ’’رفع طور‘‘ کی صحیح تاویل:

سوال: آپ نے سورہ بقرہ کے حاشیہ نمبر ۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔ آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیوں نہیں کرتے؟

حیات برزخ اور سماع موتیٰ:

سوال: تفہیم القرآن کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ الحمد للہ بہت اچھے طریقے سے مضامین قرآن مجید دلنشیں ہو جاتے ہیں۔ لیکن بعض مواقع پر کچھ اشکال محسوس ہوئے ہیں۔ ان کو پیش خدمت کیے دیتا ہوں۔ براہ کرم ان کا حل تجویز فرما کر مرحمت فرمائیں۔ یہ چند معروضات اس لیے ارسال کر رہا ہوں کہ میں نے آپ کی تصنیفات میں سے رسائل و مسائل حصہ اول و دوم اور تفہیمات حصہ اول، دوم کو بہ نظر غائر دیکھا ہے۔ ان میں آپ نے جن آیات اور احادیث پر قلم اٹھایا ہے، ان کے مفاہیم کو دلائل سے واضح فرمایا ہے۔ بنا بریں میں امید کرتا ہوں کہ میری پیش کی ہوئی گزارشات کو بھی دلائل سے بیان فرما کر میری تشفی فرمائیں گے۔

قرآ ن مجید میں قرأتوں کا اختلاف

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلے کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔

قرآن مجید کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں نبی کریمؐ پر نازل ہوا تھا حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی … لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قرأت مختلف طریقوں سے مروی ہے ، جن میں اعراب کا فرق عام ہے بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔

اگر پہلی بات صحیح ہو تو اختلاف قرأت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علما کا اختلاف قرأت کی تائید کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر دوسری بات کو صحیح مانا جائے تو قرآن کی صحبت مجروح ہوتی نظر آتی ہے ۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنا فرق ہو جاتا ہے۔

یہاں میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔

تفسیر قرآن کے اختلافات:

سوال: قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے جو تفسیر بیان کی ہے، وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے۔