اقامت دین کے لیے کس قسم کا تزکیہ درکا ر ہے؟
سوال: اقامت دین کی دعوت جس فکر اور جس انداز میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس میں کوئی صاحب ایمان جو سمع و بصر اور شعور کی دولت سے بہرہ ور ہو، اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس اسلوب میں حاضر کے تقاضوں کا پورا لحاظ اور اس دعوت کے مزاج کی حقیقی رعایت ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے اور احقاق حق کے لیے یہی دو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کام سے تمام و کمال اتفاق کے باوجود ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ دین کو برپا کرنے کے لیے جس صحبت کامل، جس سیرت سازی اور جس نظر کیمیا کے اعلیٰ اوصاف رسول اللہﷺ میں موجود تھے، وہ کوئی پھر کہاں سے لاسکتا ہے۔ حضورﷺ کی عظیم ترین شخصیت، پھر الہام و وحی سے ہر ہرگام پر رہنمائی، پھر استفادہ و استفاضہ کرنے والے قلوب کی غایت توجہ و اشتیاق نے جماعت صحابہ کے ایک ایک فرد میں یقین کی وہ آگ اور خلوص کا وہ لازوال جذبہ پیدا کردیا تھا کہ ان کی زندگی کے ہر ہر جزو سے ان کی دعوت اور ان کے مقصد کا عشق ٹپکا پڑا تھا۔ آج جب کہ نہ وہ پاکیزہ صحبت، نہ وہ بے خطا قیادت اور نہ مخاطبین میں وہ اہلیت و کیفیت ایسی حالت میں مخلص مجاہدین کی وہ جماعت برپا ہوسکے گی؟ اس کا تصور بھی دشوار ہے۔