مزید عنایات

سوال: جماعتِ اسلامی کے تحت قائم شدہ حلقہ ہمدرداں تو ہمارے علاقے میں پہلے سے تھا، لیکن باقاعدہ جماعتی کام حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ عوام کا رجحان جماعت کی طرف کثرت کے ساتھ دیکھ کر علمائے دیو بند، سہارن پور، دہلی اور تھانہ بھون نے جو فتاویٰ شائع کیے ہیں، وہ ارسال خدمت ہیں اور علمائے دیو بند کا ایک فتویٰ جو کہ ابھی زیر کتابت ہے، مفصل کتابی شکل میں آنے والا ہے، آنے پر ارسال کردیا جائے گا۔

ان فتوؤں کے جواب میں سکوت مناسب نہیں ہے۔ غور کرکے جواب دیجیے یہ بھی تحریر فرما دیجیے کہ اب آپ کا تعلق ہندوستان کی جماعتِ اسلامی سے کیا ہے؟ کچھ تعلق ہے یا نہیں؟ مولانا ابوللیث اصلاحی جو کہ ہندوستان کی جماعت کے امیر ہیں، حقیقت میں امیر ہیں یا صرف خانہ پری کے لیے فرضی ہیں؟ نیز یہ کہ اگر آپ نے کسی عالم سے فیض حاصل کیا ہو تو ان کے نام ضرور تحریر فرمائیں اور اگر کوئی اور وجوہ آپ کو ان کے فتوؤں کے بارے میں معلوم ہوں تو وہ بھی تحریر کریں کہ اس قدر شدت کے ساتھ یہ طوفان کیوں اٹھ رہا ہے؟

تشخیص مریض

سوال:عنایت نامہ مایوسی کی حالت میں پہنچا۔ اس نے میرے قلب و دماغ پر جو اثر کیا وہ دائرہ تحریر سے باہر ہے۔ میں نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں، ان کو لے کر میں ہر جماعت میں داخل ہوا لیکن ہر جگہ سے بد دل ہو کر لوٹا اور آخر کار فیصلہ کرلیا کہ اب کسی جماعت میں دخل نہ دوں گا بلکہ انفرادی حیثیت سے جو کچھ خدمت دین ممکن ہوگی، انجام دوں گا۔ اسی خیال کے تحت محلے کی مسجد میں بعد نماز فجر تفسیر حقانی اور بعد نماز عشاء رحمتہ للعالمین مولفہ قاضی سلمان منصور پوری یکم اکتوبر ۱۹۴۹ء سے سنانی شروع کی۔ میرے خیالات اس کام سے اور پختہ ہوگئے۔ ستمبر ۵۱ء میں اتفاقیہ ایک شخص کے ذریعے مجھے ’’سیاسی کشمکش‘‘ کا تیسرا حصہ مل گیا۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا، میرے خیالات کی دنیا نے پلٹا کھایا اور اب میں جماعتِ اسلامی کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ لٹریچر کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا اور پھر مسجد میں خطبات سنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کو شروع کرنے کے بعد وہ فتنہ پھوٹا جس کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔

ایک ہمدرد بزرگ کا مشورہ

سوال: اقامت دین کی تحریک حسب معمول قدیم نئے فتنوں سے دو چار ہو رہی ہے۔ فتویٰ بازی اور الزام تراشی جس طبقہ کا مخصوص شعار تھا، وہ تو اپنا ترکش خالی کرکے ناکام ہوچکا ہے۔ اب اصحاب غرض نے ہمارے سلسلہ دیو بند کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں کی جماعتِ اسلامی نے کچھ تنقید و تبلیغ میں بے اعتدالی سے کام لیا ہو اور اس کا رد عمل ہو۔ وہاں کے استفتاء کے جواب میں بھی اور یہاں پاکستان کے استفتاؤں کے جواب میں بھی مستند و محتاط حضرات کے فتویٰ شائع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اہل علم کا بہت زیادہ طبقہ دیو بند سے وابستہ ہے اور وہاں کے فتوے سے اثر پذیر ہونا بھی لازمی ہے جس کا اثر بد تحریک پر بھی پڑسکتا ہے۔ لہٰذا آپ ضرور مناسب طریقے سے اس کی مدافعت کیجیے۔ ۳۲ صفحے کا ایک فتوی دارالافتاء سہارن پور کا شائع ہوا ہے جس کے آخر میں مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہان پوری اور مولانا اعزاز علی صاحب کا فتویٰ بھی ہے رسالہ دارالعلوم کا جو پہلا نمبر نکلا ہے اس میں حضرت مولانا گنگوہی کے پوتے حکیم محمود صاحب کا ایک طویل مکتوب ہے۔ اگرچہ انہوں نے نہایت محتاط طریقے سے اور متانت کے رنگ میں لکھا ہے اور میرے خیال میں انداز تعبیر نہایت سنجیدہ ہے۔ لیکن بہرحال انہوں نے بھی تحریک کو عوام کے لیے دینی لحاظ سے مضر بتایا ہے۔ اثر انگیز ہونے کے لحاظ سے جوشیلے اور غیر معتدلانہ فتوؤں سے یہ زیادہ برا ہوتا ہے۔ کل مجھے بٹالہ کے ایک بزرگ کو ضلع … سے خط آیا ہے جن کا حضرت گنگوہی سے تعلق تھا اور اس کے بعد دوسرے تمام بزرگان دیو بند سے تعلق رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ابھی مجھے حضرت … کا خط سہارن پور سے آیا ہے اور انہوں نے تحقیق حال کے طور پر پوچھا ہے کہ ایک واقعہ مجھے صحیح طور پر معلوم کرکے لکھو۔ پاکستان سے برابر خط آرہے ہیں کہ مولانا مودودی، حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت مولانا نانوتوی کا نام لے لے کر ان کی مخالفت میں تقریریں کرتا رہا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کے ساتھ مناسبت ہی نہ تھی اور خاص طور پر سرگودھا کی تقریروں کا حوالہ دیا ہے کہ وہاں نام لے کر یہ مخالفت کی گئی ‘‘۔ بٹالو بزرگ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ صحیح واقعہ کیا ہے۔ میں نے انہیں جواب دے کر تردید کردی ہے کہ یہ محض افترا ہے اور خود سہارن پور بھی حضرت … کو خط لکھ دیا ہے۔ تاہم آپ خود بھی ان الزامات کی تردید کریں۔ جواب در جواب کا سلسلہ بھی غلط ہے اور سکوت محض سے بھی لوگوں کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اصل مقصد یعنی تحریک اقامت دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ علی الخصوص حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت مولانا محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مولانا حفیظ الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا احمد سعید صاحب، حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب، حضرت مولانا حافظ عبد اللطیف صاحب سے خط و کتابت کرکے انہیں مشورہ دیں کہ اگر میرے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی استفتاء آپ کے سامنے آئے تو جواب دینے سے پہلے مجھ سے اصل حقیقت معلوم کرلیا کریں۔

اعتراضات بے تحقیق

سوال: آپ کی کتابوں کی بعض باتوں پر مجھے شک ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات بھیج رہا ہوں، ان کے جواب دے کر مطمئن کریں:

ایک اور اعتراض

سوال: میں مدرسہ مظاہر العلوم کا فارغ التحصیل ہوں۔ میرا عقیدہ علما دیو بند و مظاہر العلوم سے وابستہ ہے مگر ساتھ ساتھ اپنے اندر کافی وسعت رکھتا ہوں۔ جہاں مجھے بھلائی معلوم ہوجائے، وہاں حتی الامکان اس میں حصہ لینے کا رجحان رکھتا ہوں۔ اسی وجہ سے جماعتِ اسلامی کے ساتھ قلبی ربط رکھتا ہوں۔ اخبار ’’کوثر‘‘ اور لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں، مولانا ابوللیث کی زندگی کو قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ علمائے دیوبند اور آپ کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس کا بھی مجھے علم ہے اور اس کی وجہ سے میری طبیعت پریشان ہے۔ میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے وہ شمارے پڑھے ہیں جن میں حکیم گنگوہی صاحب کے اعتراضات کے جوابات آپ نے بہ نفس نفیس اور مولانا امین احسن صاحب نے دیے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہی میں نے حضرت استاد مفتی … کی خدمت میں جوابی لفافہ بھیجتے ہوئے لکھا ہے کہ میری نظر میں ایک یہی جماعتِ اسلامی موجودہ وقت میں حزب اللہ معلوم ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کام کروں۔ مگر ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ آپ حضرات کو اس جماعت سے شدید اختلاف ہے۔ لہٰذا آپ مولانا مودودی کے وہ خیالات ان کی کتابوں سے نقل فرمائیں جو اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’کشف الحقیقۃ‘‘ نامی رسالہ بھیج دیا۔میں اس کا مطالعہ کرچکا ہوں۔

مولانا حسین احمدصاحب کا فتویٰ

سوال: جناب مولانا حسین احمد مدنی نے ایک پمفلٹ ’’مسلمان اگرچہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘ شائع کرایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہلِ سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیتِ صریحہ کے بالکل منافی ہے اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزوایمان ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کوشافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ شافعیہ و محدثین اعمال کو ایمان کا جزو مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں۔…

جماعتِ اسلامی اور علمائے کرام

سوال: جماعتِ اسلامی اور علمائے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔ اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے (جو قلیل ہے) اور دوسری جماعت علمائے حق کی ہے جو اہل دیو بند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں) اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔ اگر اس گروہ عظیم کے اکابر و اصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائز دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔

علمائے کرام کی خدمت میں

سوال: ہمیں ایک اشتہار موصول ہوا ہے جسے ہندوستان سے لاکر پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

حضرت مولانا مدنی کا بصیرت افروز بیان

مولانا مولوی عبدالحمید بلند شہری مدرس مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ ضلع سہارنپور کے ایک خط کا وہ اقتباس ہے جو انہوں نے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی عمت فیوضھم کو لکھا ہے۔ ذیل میں صرف وہ حصہ ہے جس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنا نام جماعت اسلامی رکھا ہے:

چند دلچسپ سوالات

سوال: ’’حسب ذیل استفسارات پر روشنی ڈال کر بے پایاں شکریہ کا موقع دیں:

۱۔ اگر آپ کی جماعت پاکستان میں نہ آجاتی تو تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں؟

۲۔ پنچائتی نظام اگر کسی جماعت کے امیر کو ’’صالح‘‘ نمائندہ تجویز نہیں کرسکتا تو اس جماعت کے افراد کیوں کر صالح قرار دیے جا سکتے ہیں؟

۳۔ ایک شیعہ (جوخلفائے ثلاثہ کی حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے) اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے آپ کی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں؟

۴۔ کیا ایک صالح نمائندہ اپنے حق میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ شرعی دلیل کیا ہے؟

۵۔ آپ کے تجویز کردہ نظام پنچائیت میں اسمبلی سے باہر اور اندر حلقوں اور عہدوں کی بھر مار اور سر جوڑ کر بیٹھنے کا طریق خلافت راشدہ کے زمانے میں موجود تھا؟ یا خلیفہ وقت عوام کے لیے از خود نمائندے نامزد کرتا تھا؟

۶۔ ہندوستان میں کفر و ارتداد کی مہم تیز ہے۔ کیا ان حالات میں پاکستان کا فرض نہیں کہ وہ بزور شمشیر ہندوستان پر قابض ہو کر آپ کی صالحانہ قیادت کی روشنی میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لے آئے؟ اس صورت میں کیا موجودہ مالی اور اقتصادی معاملات اسلامی علم بلند کرنے کے راستے میں کبھی روک تو ثابت نہیں ہوسکتے؟

تبلیغی جماعت سے ایک دوستانہ شکایت

سوال:پچھلے دنوں سکھر میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں ہندوستان و پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر جناب مولانا محمد یوسف صاحب (صاحب زادہ و جانشین مولانا محمد الیاس صاحب مرحوم) خود تشریف لائے تھے۔ جماعتِ اسلامی سکھر نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر جلسہ گاہ کے حدود میں اپنا ایک بک اسٹال لگائے۔ چنانچہ منتظمین سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کے ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا اس میں اعتراض کی کون سی وجہ ہوسکتی ہے، آپ شوق سے اپنا مکتبہ لگائیں۔ اس کے بعد ان سے اسٹال کے لیے جگہ بھی طے ہوگئی۔ مگر دوسرے روز شام کو جب فضل مبین صاحب امیر جماعتِ اسلامی سکھر نے وہاں جا کر اسٹال لگوانے کا انتظام شروع کیا تو انہیں یکایک منع کردیا گیا۔ وجہ پوچھی گئی تو ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ ’’ہماری مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ آپ کو مکتبہ لگانے کی اجازت دیں گے اور نہ آپ سے کسی قسم کا دوسرا تعاون لیں گے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ایک سیاسی جماعت ہیں‘‘۔ اس جواب اور اس طرز عمل پر جو تعجب ہوا، اس پر مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ وہاں دوسرے متعدد بک اسٹالز موجود تھے اور اس پر ان حضرات کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر جماعتِ اسلامی کے متعلق ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی جلسہ گاہ سے ایک میل تک بھی اس کا مکتبہ نظر نہ آئے۔