چند کاروباری مسائل

سوال: ایک درآمد کنندہ (Importer) غیرممالک سے مال منگوانے کے لیے دس فیصدی پر بینک میں لیٹر آف کریڈٹ کھولتا ہے اور بعد میں اپنے اس بُک کرائے ہوئے مال کو انہی شرائط کے مطابق جن شرائط پر اس نے خود مال بُک کیا تھا فروخت کردیتا ہے یعنی دس فیصدی بیعانہ کے ساتھ۔

مذکورہ بالا شرائط میں سے ایک اور واضح شرط یہ ہے کہ اگر مالِ مذکورہ تحریر کردہ مدت کے اندر شپ (Ship) نہ ہوسکا، یا کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے سرے سے سودا ہی منسوخ ہوگیا تو خریدار کو بیعانہ واپس لے کر معاملہ ختم کرنا ہوگا۔ (عملاً اسی طرح ہوتا ہے) گویا مال شپ نہ ہونے کی صورت میں خریدار اس مال کے نفع نقصان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اگر مال بک ہوگیا تو مال کا بھگتان ہوتا ہے ورنہ دوسری صورت میں بیعانہ واپس اور سودا منسوخ۔ چاہے یہ سودا کئی جگہوں پر فروخت ہوچکا ہو۔

اس طریقہ کار میں وہ کون سے نقائص اور خرابیاں ہیں جن کی بنا پر اسے شرعاً نہ درست کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کا لاکھوں روپے کا کاروبار تقریباً ہر مہینے ہم کرتے ہیں اور اس الجھن میں پڑگئے ہیں کہ یہ طریقہ درست بھی ہے یا نہیں۔ ایک ’’صاحب علم‘‘ کی رائے اس کے حق میں بھی ہے؟

کمیشن اور نیلام

سوال: حسب ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:

(۱) بعض ایجنٹ مال سپلائی کرتے وقت دکان دار سے کہتے ہیں کہ اگر مال فروخت کرکے ہمیں رقم دو گے تو ۲۰ فیصدی کمیشن ہم آپ کو دیں گے، اور اگر نقد قیمت مال کی ابھی دوگے تو ۲۵ فیصدی کمیشن ملے گا۔ کیا اس طرز پر کمیشن کا لین دین جائز ہے؟

(۲) مسلمان نیلام کنندہ کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ جب کوئی شخص بولی نہ چڑھائے اور وہ دیکھے کہ اس میں مجھے نقصان ہوگا تو وہ خود بولی دے کر مال کو اپنے قبضے میں یہ کہہ کر رکھ لے کہ یہ مال پھر دوسرے وقت میں فروخت یا نیلام ہوگا؟ نیز کیا وہ یہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے آدمی مقرر کردے کہ وہ قیمت بڑھانے کے لیے بولی دیتے رہیں، یہاں تک کہ اس کے حسب منشا مال کی قیمت وصول ہوسکے؟

ملازمین کے حقوق

سوال: یہاں کے ایک ادارے نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ ملازمین کے معاوضہ جات اور دیگر قواعد ملازمت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث اور کتب فقہ پر میری نظر ہے، اس بارے میں کوئی ضابطہ میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ اس لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں کہ کتاب و سنت کی روشنی اور عہد خلافت راشدہ اور بعد کے سلاطین صالحین کا تعامل اس بارے میں واضح فرمائیں۔ چند حل طلب سوالات جو اس ضمن میں ہوسکتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

خاتم النبیین کے بعد دعوائے نبوت

سوال: ’’ترجمان القرآن (جنوری، فروری) کے صفحہ ۲۳۶ پر آپ نے لکھا ہے کہ میرا ’’تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔ میرا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ … جن لوگوں کو میں صداقت و دیانت سے بے پروا اور خوف خدا سے خالی پاتا ہوں، ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا … خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے … اور ان کا پردہ انشاء اللہ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔‘‘ میں عرض کردوں کہ میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے کام سے دلچسپی ہے۔ میرے مندرجہ ذیل استفسارات اسی ضمن میں ہیں:

قرار داد مقاصد کی تشریح

سوال: مجلس دستور ساز پاکستان کی منظور کردہ قرار داد مقاصد متعلقہ پاکستان میں ایک شق حسب ذیل ہے:

’’جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں‘‘۔

اس کا م کا اصل تعلق تو دراصل حکومت کے انتظامی امور ہیں، کہ وہ اس کے لیے کیا کیا اقدام کرتی ہے۔ قانونی طور پر حکومت کو مجبور کرنے نیز اس سلسلے میں غفلت یا عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں دستور میں کیا کیا (Provisions) ہونی چاہئیں کہ یہ مقصد بروئے کار آجائے؟ نیز دستوری طور پر حکومت کو اس سلسلے میں غفلت برتنے، عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں کس طرح روکا جاسکے؟ اور ایک شہری کو حکومت کے خلاف عدلیہ کے سامنے اس بات کو لانے کے لیے کیا کیا تدابیر ہونی چاہئیں؟

تدوینِ قانون میں اکثریت کے مسلک کا لحاظ

سوال: آپ نے غالباً کہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہو، قوانین انہی کے فیصلوں کے مطابق بنائے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاً پاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لاء کی گنجائش رکھی جائے گی۔ اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو آئمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کی بجائے محض کتاب و سنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی، انہی کو قانونی جواز حاصل ہوگا؟ پہلی صورت میں قوانین کا ماخذ کتاب و سنت کی بجائے فقہائے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔ لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔ دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب و سنت ہی ٹھہرے گا۔ لیکن اسکی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر و نظر اور مسلکی عصبیت و حمیت دخیل نہ ہوگی۔ اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہائے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔ صرف چند الجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں، ان کا حل مطلوب ہے۔

کیا عربی پاکستان کی قومی و سرکاری زبان بن سکتی ہے؟

سوال: ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کی منشاء کے مطابق تبدیلی آئے۔ فی الحال یہ ایک خاص مسئلہ پر متوجہ ہیں۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان بروئے دستور عربی قرار پائے۔ ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔

دعویٰ مہدویت کا بہتان

سوال: مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعتِ اسلامی کے موضوع پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ انہوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔ حاضرین کے دلوں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی علیہ السلام کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟ مہربانی فرما کر بذریعہ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں؟

چند اور موشگافیاں

سوال: خدا کے دین کی اشاعت کا جو کام اپنی توفیق کے مطابق ہم لوگ سر انجام دے رہے ہیں، اس کے پھیلنے میں آپ کی بعض کتابیں مثلاً دینیات، خطبات وغیرہ بہت مدد دے رہی ہیں اور ان کی مانگ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف مخالفین کرام کا خاص ہدف بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کی بعض عبارات کو چھانٹ چھانٹ کر غلط فہمی پھیلانے اور ہمیں بدنام کرنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا پرست مفتیان کرام ان عبارات کی بنیاد پر ہمارے خلاف فتوائے کفر تک جاری کرچکے ہیں۔ ان حالات میں گفتگوؤں کا محور تمام تر آپ کی چند خاص عبارات بن گئی ہیں۔ یہ عبارات حسب ذیل ہیں:

جماعتِ اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم

سوال: میں اپنے قصبہ … میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے کام کر رہا ہوں۔ چند اور رفیق بھی میرے ساتھ ہیں۔ انفرادی مخالفت پہلے بھی تھی جس کی رپورٹ میں اپنی جماعت کے مرکز کو بھیجتا رہا ہوں لیکن اب ایک معاملہ ایسا پیش آگیا ہے کہ آپ سے استفسار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

پرسوں سے ایک مولانا صاحب جن کا نام … ہے یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے قصبہ میں اپنے خاص اشتہارات (ایک نقل منسلک ہے) کافی تعداد میں تقسیم کروائے ہیں۔ پھر شام کو ایک بہت بڑے مجمع میں تقریر کرکے جماعتِ اسلامی کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ میں چند باتیں ان کی نقل کرکے ملتمس ہوں کہ ضروری تصریحات سے جلد از جلد میری رہنمائی فرمائی جائے۔