علمائے کرام کی خدمت میں

سوال: ہمیں ایک اشتہار موصول ہوا ہے جسے ہندوستان سے لاکر پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

حضرت مولانا مدنی کا بصیرت افروز بیان

مولانا مولوی عبدالحمید بلند شہری مدرس مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ ضلع سہارنپور کے ایک خط کا وہ اقتباس ہے جو انہوں نے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی عمت فیوضھم کو لکھا ہے۔ ذیل میں صرف وہ حصہ ہے جس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنا نام جماعت اسلامی رکھا ہے:

’’یہ خیال اس وقت سے پیدا ہوا ہے جب سے مودودیت جو کہ گنگوہ میں صورتِ فتنہ اختیار کیے ہوئے ہے، کچھ تبادلہ خیالات اور کچھ ان کے اخبارات کا مطالعہ تردیداً کیا گیا۔ یہ لوگ صحابہؓ تک متجاوز کہہ دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ، ابن عمرؓ اور حضرت عائشہؓ کو احیائے تبلیغ دین میں متجاوز عن الاعتدال کے الفاظ اختیار کیے ہیں۔ نیز خود مسئلہ اعتدال میں فرماتے ہیں کہ میں نے اشخاص ماضی و حال بلاواسطہ دین کو کتاب و السنۃ، کتاب اللہ سے سمجھا ہے۔ نیز حضرت حاجیؒ و مجدد الف ثانی کے متعلق لکھتے ہیں۔ ان حضرات نے ابتدائی زندگی میں تو اچھا کام کیا مگر اخیر عمر میں ایسی مسموم غذا مسلمانوں کو دے گئے ہیں کہ آج تک مسلمان اس کے زہر سے محفوظ نہیں ہیں اور یہی تنقیدات تصوف پر بہت کی ہیں۔

بعض اہلِ گنگوہ نے دیگر بعض کو حضرت بوسعیدؒ کے مزار پر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ ایک سنیاسی ہے جو پتھروں میں پڑا ہے اور یہ مشہور مقولہ ہے مودودیوں کا کہ دیوبند مظاہرالعلوم میں قربانی کے مینڈھے تیار کیے جاتے ہیں۔ علماء پر زبردست ریمارک خاص کر ماضی و حال کے بزرگوں پر غرض بالتفصیل پھر عرض کروں گا۔ اس وقت یہ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ آیا ہم کھل کر ان لوگوں کو جواب دیں۔ کیونکر خاص کر گنگوہ سے مجھ کو واسطہ ہے۔ وہاں پر میں اشرف العلوم میں خدمت کرتا ہوں اور شب و روز یہ منکرات سامنے آتے رہتے ہیں تو لامحالہ یہ کہنا پڑتا ہے۔ جواب شافی سے نوازیں۔

(عبدالحمیدبلند شہری)
عبارت کی تمام غلطیاں اور بے ربطیاں جوں کی توں اشتہار ہی سے نقل کی گئی ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔

جواب: انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ خواہ صحابہ کرام ہوں یا اولیاء عظام یا آئمہ حدیث و فقہ و کلام کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ سب سے غلطیاں تو ہوسکتی ہیں مگر ان کے متعلق اعتمادیت کی شہادتیں قرآن و حدیث میں بکثرت موجود ہیں اور ان کے اعمال نامے اور اتقاء و علم کی تاریخی روایت معتبرہ اس قدر امت کے پاس ہیں کہ قرون حالیہ کے پاس ان کا عشرعشیر نہیں ہے۔ ان پر تنقید ان ہی جیسے پایہ علم و اتقاء والا کرسکتا ہے۔ ہمارے زمانے کے ٹٹ پونجیے جن کے پاس علم ہے نہ تقویٰ کیا منہ رکھتے ہیں کہ زبان دراز کریں سوائے اپنی بدبختی کے اظہار اور کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد

میلش اندر طعنہ پاکاں زن

اللہ تعالیٰ ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے:

محمد رسول اللہ والذین معہ اشدَّاء علی الکفار… الآیتہ

دوسری جگہ ہے: ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم… الآیتہ

تیسری جگہ ہے: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس… الآیتہ

چوتھی جگہ ہے: وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا… الآیتہ

اور یہ کم بخت ان کی شان میں ہذیان بکتے ہیں۔ جناب رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اتقوا اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم من بعدی غرض الحدیث۔ خدا سے ڈرو میرے اصحاب کے متعلق میرے بعد ان کو نشانہ ملامت مت بناؤ۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ: خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم (الحدیث) اور یہ بدبخت ان کی شان میں بدگوئیاں کرتے ہیں۔ سوائے بدنصیبی کے اور کیا ہے۔ ان خبیثوں سے گفتگو اور مناظرہ وغیرہ کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اور ہماری ہدایت فرمائے۔ آمین والعلوم اور مظاہرالعلوم یا ان کی بنیاد رکھنے والوں اور طلبہ اور مدرسین کے متعلق ہر گمراہ اور مخالف اہلِ اسلام اور مخالف اہلِ سنت ایسے ہی الفاظ کہتا ہے۔‘‘

ننگ اسلاف حسین احمد غفرلہ، دارالعلوم دیوبند ۱۳ ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ
المشتہر: مولوی سید شفیق الرحمن، محلہ عالی کلاں سہارن پور
(مطبوعہ جدت برقی پریس… مراد آباد)
یہ عبارت بھی اشتہار سے جوں کی توں نقل کی گئی ہے۔

یہ اشتہار بازی بجائے خود اس نوعیت کی ہے کہ اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے سخت انقباض محسوس ہوتا ہے اور ناظرین ترجمان القرآن گواہ ہیں کہ اس طرز کے اشتہارات اور اخبارات و رسائل کے مضامین سے کبھی ان صفحات میں تعرض نہیں کیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ بعض نادان مرید اور شاگرد اب ایسے اکابر کو اس میدان میں اتار لائے ہیں جو اپنے علم و تقویٰ اور روحانی مشیخت کے لحاظ سے ہندوستان و پاکستان کی مذہبی دنیا میں معتمد علیہ ہیں۔ اس لیے مجبوراً پچھلی اشاعت میں بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑی تھی اور اب اس اشاعت میں دوبارہ اس پر اظہار خیال کرنا پڑرہا ہے۔ ہماری طرف سے اس سلسلے میں یہ آخری گزارشات ہیں۔ خدا کرے کہ اس کے بعد پھر ان صفحات کو اس طرز خاص کے پروپیگنڈے کی جواب دہی سے آلودہ کرنے کی نوبت نہ آئے۔

(۱)
سب سے نمایاں چیز جو مولانا حسین احمد صاحب کے اس بیان میں نگاہ کو کھٹکتی ہے وہ ان کی زبان ہے۔ جسے ممکن ہے مولانا خود اپنے شایان شان سمجھتے ہوں مگر ہم ان کے ساتھ اتنا حسن ظن رکھتے ہیں کہ یہ زبان ہمیں ان کے مرتبے سے فروتر نظر آتی ہے۔ کسی شخص یا گروہ سے اختلاف ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ سخت سے سخت اختلافات ہوسکتے ہیں اور سخت سے سخت اظہار رائے شریفانہ زبان میں کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ زبان کہ جس سے اختلاف ہو، اس کے خلاف ٹٹ پونجئے، کم بخت اور خبیث جیسے رکیک الفاظ استعمال کرڈالے جائیں، ایک مہذب آدمی کے بھی شایان شان نہیں ہے، کجا کہ ایک ایسا مردِ بزرگ اس کو اختیار کرلے جو اس برعظیم کی سب سے بڑی درسگاہ کا مسند نشین ہے اور جس کی طرف ہزارہا آدمی تعلیم دین ہی کے لیے نہیں، تزکیہ نفس کے لیے بھی رجوع کرتے ہیں۔ جب قوم کے مقتدا اور مربی و معلم اس طرح کی باتوں پر اتر آئیں تو بعید نہیں کہ ان سے اخلاق و تہذیب کا سبق لینے والے احترام آدمیت سے بالکل ہی عاری ہوجائیں اور اس قوم میں نام کو بھی ایک دوسرے کی عزت کا پاس باقی نہ رہ جائے۔

اذا کان رب البیت بالطبل ضارباً
فلا تلم الاولاد فیہ علی الرقص

مولانا کو اگر یاد نہ ہوتو ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ کسی وقت ہم نے بھی ان کے نظریہ قومیت اور ان کی کانگریس سے موافقت پر تنقید کی ہے۔ وہ تنقید اب بھی ہماری کتابوں (’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’مسلمانوں اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ دوم) میں موجود ہے۔ وہ اور ان کے شاگرد اور مرید ہماری ان تنقیدی عبارات کو دیکھ کر خود رائے قائم فرمائیں کہ دونوں زبانوں میں کتنا فرق ہے۔ بالفرض دس بارہ برس بعد ان کا بدلہ لینا ہی ضروری تھا تو جزاء سئیۃ سیئۃ مثلھا کے اصول پر لیا جاسکتا تھا۔ یہ تعدی آخر کس آئین کی رُو سے حضرت کے لیے جائز ہوگئی۔

(۲)
دوسری بات جو اس سے زیادہ افسوناک ہے وہ مولانا کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ روش ہے جو انہوں نے دوسروں کے دین و اعتقاد پر اظہار رائے میں اختیار کی ہے۔ ان کے سامنے ایک مضروضہ سوال پیش نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ایک جماعت کا نام لے کر اس پر چند الزامات لگائے گئے تھے۔ تنابز بالالقاب سے قطع نظر ’’مودودیوں‘‘ اور ’’مودودیت‘‘ کے الفاظ سے جس جماعت کا ذکر کیا گیا ہے، مولانا اس سے بالکل ناواقف نہ تھے۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ ہندوستان و پاکستان میں لاکھوں مسلمان اس سے وابستہ اور لاکھوں اس سے متاثر ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس جماعت کے خیالات کہیں چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ لکھے لکھائے مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود ایک سائل نے جیسے کچھ بے سروپا الزامات بغیر کسی حوالے اور ثبوت کے اس پر لگادیئے۔ ان کو مولانا نے جوں کا توں تسلیم کرلیا اور ان پر ایک تندوتلخ جواب غالباً یہ جانتے ہوئے سائل کے حوالے کردیا کہ اس سوال و جواب کو ان کے اپنے معتقدین اشتہار بازی کے لیے استعمال کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کوئی ضرورت یہ تحقیق کرنے کی نہیں سمجھی کہ جس گروہ کے متعلق یہ سوال کیا جارہاہے۔ اس نے صحابہ کرامؓ اور دوسرے بزرگوں سے متعلق فی الواقع کیا لکھا ہے؟ کس سیاق و سباق میں لکھا ہے اور اس کی دوسری تحریرات کیا شہادت دیتی ہیں کہ وہ ان کے بزرگوں کے متعلق کیا خیال رکھتا ہے؟ انہوں نے یہ معلوم کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہ سمجھی کہ اس گروہ کے بعض اشخاص کی طرف منسوب کرکے جو باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں، وہ فی الواقع کس نے کہی ہیں، اس کی اس گروہ میں کیا حیثیت ہے؟ اور اس کی کسی بات کو پورے گروہ کے خیالات کی ترجمانی قرار دیا بھی جاسکتا ہے، یا نہیں؟ بالفرض اگر مولانا کے پاس اس گروہ کی مطبوعات پڑھنے کے لیے وقت نہ تھا اور نہ بیان کردہ امور کی تحقیق ہی کی لیے وہ فرصت پاتے تھے تو آخر کس طبیب نے مشورہ دیا تھا کہ حضرت اس معاملہ میں رائے ضرور دیں؟ میں پوچھتا ہوں، کیا مذہبی پیشوائی کے ایسی کسی ذمہ دار مسند پر بیٹھ کر ایک متقی عالم کی یہ روش ہونی چاہیے؟ کیا تقویٰ اور دیانت اسی چیز کا نام ہے؟ کیا یہی وہ تزکیہ نفس ہے جس سے حضرت خود بہرہ مند ہیں اور دوسروں کو بہرہ مند فرمارہے ہیں؟ کیا اس جواب کی تحریر کے وقت حضرت کو نبیﷺ کے یہ ارشادات یاد تھے کہ سباب المسلم فسق اور کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ۔ کیا یہ جواب لکھتے وقت حضرت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ سوچا تھا کہ ہمیں اور انہیں ایک وقت مرنا اور اپنے رب کی عدالت میں حاضر ہونا ہے، وہاں اگر سائل کے الزامات محض بہتان و افتاء ثابت ہوگئے تو حضرت اس کی توثیق کی پاداش سے کیا دے کر بچیں گے۔

(۳)
مولانا اور ان کے گروہ کے دوسرے حضرات، جن کی تحریریں حال ہی میں جماعتِ اسلامی کے خلاف شائع ہوئی ہیں، اس بات کو بالکل بھول گئے ہیں کہ کسی شخص یا گروہ کے عقیدہ و مسلک کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا یا ظاہر کرنا دیانتہً اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کہ انصاف کے ساتھ اس کی تمام یا اکثر تحریروں کو خود نہ پڑھ لیا جائے۔ کسی خدا ترس آدمی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ محض سنی سنائی باتوں پر دوسروں کو ضال اور مضل قرار دے بیٹھے، یا چند نیازمندوں کی پیش کی ہوئی نشان زدہ عبارتوں پر رائے قائم کرلے اور اسے شائع کردے۔ یا پہلے کسی کی خبر لینے کا عزم کرلیا جائے اور پھر اس کی کتابیں اس غرض سے کھنگالی جائیں کہ کہاں اس کو مطعون کرنے اور ا س پر الزام تراشنے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے، یا ایک شخص کی بعض عبارتوں سے ایسے معانی اور نتائج نکالے جائیں جن کی تردید خود اس شخص کی بہت سی عبارتیں کررہی ہوں۔ اس طرح کی حرکتیں وہ لوگ تو کرسکتے ہیں جن کے پیش نظر صرف دنیا اور اس کی زندگی ہے مگر جنہیں خدا اور آخرت کابھی کچھ خیال ہو، ان سے ایسی حرکات بالکل خلاف توقع ہیں۔

ان حضرات کی وہ تمام تحریریں ہم نے بالاستیعاب پڑھی ہیں جو انہوں نے ہمارے خلاف لکھی ہیں۔ ان کا پورا تجزیہ کرنے کے بعد جو کچھ ہم نے پایا ہے، وہ یہ ہے کہ:

۱۔ بعض مقامات پر ہماری اصل عبارتیں نقل کرنے کی بجائے اپنے نکالے ہوئے نتائج اپنے الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں اور انہیں ہمارے سر تھوپ دیا گیا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں۔ یہ حرکت تمام ایسے مقامات پر کی گئی ہے جہاں الزام لگانے والے نے یہ محسوس کیا کہ اگر وہ ہماری عبارت کو ہمارے الفاظ میں نقل کرے گا تو اپنا الزام ثابت نہ کرسکے گا۔

۲۔ بعض مقامات پر چند فقرے ایک سلسلہ عبارت سے الگ کرکے ان سے من مانے نتائج نکالے گئے ہیں۔ حالانکہ اگر وہی مضمون پورا پڑھا جائے یا وہ کتاب پوری پڑھی جائے جس کے چند فقروں پر ان نتائج کی بنا رکھی گئی ہے تو اس سے بالکل برعکس نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یا تو محض کسی کے دکھائے ہوئے نشان زدہ فقرے مفتی صاحب نے ملاحظہ فرمالیے اور فتویٰ رسید کردیا، یا پھر پورا مضمون پڑھنے کے باوجود دانستہ الزام تراشی فرمائی۔

۳۔بعض مقامات پر ہماری عبارات میں کھلی کھلی تحریفیں کی گئی ہیں۔ کہیں آگے پیچھے اپنے الفاظ ملالیے گئے ہیں اور کہیں ایک فقرے کو ان فقروں سے الگ کیا گیا ہے جو اصل مدعا کو ظاہر کرتے تھے۔ اس طرح کی تحریفات غالباً یہ سمجھتے ہوئے کی گئی ہیں کہ جن لوگوں کی نظر سے ہماری اصل مطبوعات گزری ہیں، ان کی نگاہ میں چاہے محرف کی رتی برابر وقعت باقی نہ رہے، مگر بہت سے ناواقف لوگ تو دھوکہ کھاہی جائیں گے۔

۴۔ بعض مقامات پر ہماری عبارت تو صحیح نقل کی گئی ہے۔ مگر ہمارا منشا سمجھنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی گئی اور خالص بدظنی کے ساتھ ہمارے الفاظ سے بالکل غلط معنی نکال لیے گئے۔ حالانکہ ہم سے پوچھا جائے تو ہم اپنے الفاظ کا صحیح محمل بتاسکتے ہیں اور اپنی دوسری تحریروں سے ثابت کرسکتے ہیں کہ ان الفاظ سے ہمارا اصل مدعا کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک عبارت اگر دو یا زائد معنوں کی متحمل ہو تومعتبر صرف وہی معنی ہوں گے جو خود مصنف بیان کرے اور جن کی شہادت اس کی دوسری عبارتیں دیں، نہ کہ جو ایک معاند بیان کرے۔

۵۔ بعض مقامات پر کسی ماخذ اور حوالے کے بغیر ہماری طرف ایک عقیدہ یا مسلک یا جریمہ منسوب کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ ہم اس سے بار ہا باالفاظ صریح برأت ظاہر کر چکے ہیں اور ہماری تحریروں سے ہر گز اس الزام کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حیران ہیں کہ یہ آخر دیانت کی کونسی قسم ہے کہ کسی کو زبردستی گمراہ، بدعقیدہ اور مجرم بنانے کی کوشش کی جائے، درآں حالیکہ وہ بار بار اس سے برأت ظاہر کر رہا ہو۔

۶۔ بعض مقامات پر ہمارے خلاف ایسے اعتراضات کیے گئے ہیں جن کے مدلل جوابات ہماری تحریروں میں موجود ہیں۔ یہ اعتراض اگر ہماری ان تحریروں کو پڑھے بغیر کیے گئے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کو دوسروں پر اعتراض جڑنے کا بڑا شوق ہے، مگر ان کے مسلک سے واقف ہونے کی تکلیف گوارا نہیں ہے اور اگر جوابی دلائل سے واقف ہونے کے باوجود ان اعتراضات کو دہرایا گیا ہے اور جوابی دلائل سے تعرض نہیں کیا گیا تو یہ صریح جھگڑالو ذہنیت کی علامت ہے۔

۷۔ بعض مقامات پر ہماری تحریک یا ہمارے مسلک، یا کسی خاص معاملہ میں ہمارے نقطہ نظر پر ایک جامع رائے کا اظہار کیا گیا ہے مگر اس کی تائید میں کوئی شہادت ہماری تحریروں سے پیش نہیں کی گئی، نہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس رائے کی بنیاد کیا ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد رائے زنیاں کرنے پر اگر کوئی اتر آئے تو دنیا میں کو ن ہے جو اس کی رائے کی ضرب سے بچ سکتا ہو۔

۸۔ بعض مقامات پر ساری اعتراضی تقریر کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک ہم نے کسی فقہی مسئلے کے بیان میں، یا کسی کلامی مسئلے کی تشریح میں کوئی غلطی کی ہے۔ لیکن ایسے بیان ایسے مبالغہ آمیز انداز میں کیا گیا ہے کہ گویا معاذ اللہ ہم نے سارے دین کو ہدم کر ڈالا ہے حالاں کہ نہ علمی مسائل میں غلطی کرجانا کوئی نرالا واقعہ ہے اورنہ ہر غلطی لازماً گمراہی ہوتی ہے۔

۹۔ بعض مقامات پر ایسے امور کو مخالفت اور فتوے بازی کی بنیاد بنایا گیا ہے جن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور فریقین کے پاس اپنے اپنے نقطہ نظر کی تائید میں شرعی دلائل موجود ہیں۔ اس طرح کے اختلافی مسائل کو ایک علمی بحث کا موضوع تو بنایا جاسکتا ہے مگر کسی معقول انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان کی بنیاد پر مخالفت کا طوفان اٹھائے گا اور فتویٰ بازی پر اتر آئے گا۔

یہ تجزیہ جو ہم نے ان حضرات کی مخالفانہ تحریروں کا کیا ہے، اس کے ہر جز کی نظیر ہم ان کی تحریروں سے پیش کرسکتے ہیں۔ وہ جب چاہیں، اس کے نظائر ان کی خدمت میں حاضر کردیے جائیں گے۔ اس سے پہلے اشتراکی، قادیانی، منکرین حدیث، بریلوی اور مسلم لیگی حضرات اس طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے ہیں۔ بعض مناظرہ باز اہل حدیث نے بھی یہ شیوہ اختیار کیے رکھا ہے۔ بعض اخبارات اور رسائل کا تو برسوں سے مستقل طریقہ ہی یہ رہا ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے ہمارے خلاف رائے عام پیدا کریں۔ لیکن ہم کسی ایسے شخص کو قابل التفات نہیں سمجھتے جس کے طرز عمل میں حیاء اور خوف خدا کے فقدان کی علامت پائی جاتی ہوں۔ دیوبند اور مظاہر العلوم کے ان اکابر کو ہم ابھی تک اس صف میں شامل نہیں سمجھتے۔ ان سے یہ توقع باقی ہے کہ وہ اس حد تک اپنے آپ کو گرا ہوا ثابت نہ کریں گے۔ اسی لیے ہم نے ان پر اتنا وقت صرف کیا ہے۔ خدانخواستہ جس روز اس پہلو سے ہمیں مایوسی ہوگئی، اسکے بعد انشاء اللہ ان کے ہزاروں مضامین اور ان کی لاکھ اشتہار بازیوں کا ایک جواب بھی ادھر سے سننے میں نہ آئے گا۔

(۴)
ہمارے لیے یہ بات سخت حیران کن ہے کہ ہماری مخالفت میں صرف علمائے دیوبند ہی نہیں، دوسرے گروہوں کے علما بھی جن باتوں کو بار بار چھانٹ چھانٹ کر اور ابھار ابھار کر سامنے لا رہے ہیں، وہ قریب قریب سب کی سب ایسی ہیں جن کو ہم نے احیاناً کسی بحث کے ضمن میں یا کسی سوال کے جواب میں لکھ دیا ہے۔ بلکہ بعض باتیں تو ایسی نکال نکال کر لائی جارہی ہیں جو برسوں سے ترجمان القرآن کی پرانی فائلوں میں دبی پڑی تھیں اور خود ہمیں بھی یاد نہ تھیں کہ وہ ہمارے قلم سے نکلی ہیں۔ ان میں شاید کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کی ہم نے خاص طور پر تبلیغ کی ہو، یا جس کے ماننے کی لوگوں کو دعوت دی ہو یا جس کو ہم نے بار بار دہرایا ہو۔ لیکن ہمارے یہ مخالف علما اپنے فتوؤں اور مضامین اور اشتہارات میں ان کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ہمارا اوڑھنا اور بچھونا یہی مسائل ہیں۔ انہی کے ذکرو بیان میں ہم نے اپنی عمر کھپائی ہے اور انہی کو پھیلانے میں ہم دن رات لگے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس جن خیالات کو پھیلانے کی فی الواقع ہم برسوں سے کوشش کر رہے ہیں، جن چیزوں کو ہم نے بار بار لکھا اور کہا ہے، جن باتوں کو ماننے کی دنیا بھر کو دعوت دی ہے۔ جس چیز کو قائم کرنے کی سعی میں ایک مدت دراز سے ہم اپنی جان کھپا رہے ہیں اور جن چیزوں کو مٹانے کے لیے ہم نے اپنا پورا زور صرف کردیا ہے، ان کا یا توسرے سے ان حضرات کی تحریروں میں کہیں ذکر ہی موجود نہیں ہے یا پھر کبھی کبھار کسی نے ’’ہنرش نیزبگو‘‘ کی شرط پوری کرنے کے لیے ان کا ذکر کیا بھی ہے تو بس ایک اچٹتا ہوا اشارا کردیا ہے۔ کیا ان حضرات میں سے کوئی صاحب ذرا سی بھی تکلیف فرما کر ہمیں بتائیں گے کہ اس انتخاب میں کیا حکمت عملی پیش نظر ہے؟ قرآن مجید سے جو اصول ہم نے سمجھا ہے وہ تو یہ ہے کہ آدمی اپنے ان کاموں سے جانچا جاتا ہے جن کی اسے زیادہ تر فکر ہو، جن میں وہ اکثر مشغول رہے۔ یہ غالب فکر اور اکثری مشغولیت اگر حق ہو تو کبھی کبھار کے غلط کام بلا توبہ بھی معاف ہوسکتے ہیں کہ اِنَّ الْحَسَنَات یُذْھِبْنَ السَّئیِّاَت مگر یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے دور حاضر کے بزرگان دین ایک گروہ کے وقتی اور احیانی اور عارضی کاموں کو اس مقصد کے لیے چنتے اور پکڑتے پھرتے ہیں کہ ان کی مستقل دعوت اور اس کے شب وروز کے مشغلے اور اس کی غالب فکر پر ان کے ذریعے سے پانی پھیردیں۔ یہ حرکتیں دیکھ کر دل بے اختیار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے آخرت کی عدالت کے جملہ اختیارات اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کچھ بھی اختیار ان حضرات کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہوتا تو نہ معلوم یہ کن ترازؤں سے خلق خدا کو توتلے اور کس طرح ذرا ذرا سی باتوں پر لوگوں کے عمر بھر کے اعمال ضبط کردیتے۔

ان حضرات کی خاص کوشش یہ ہے کہ ان باتوں کو کسی نہ کسی ہمارے سر منڈھیں جن سے ہمارے خلاف عوام کے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جماعتِ اسلامی والے عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں، اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں، گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر سلب ایمان کا حکم لگاتے ہیں، صحابہ کرامؓ کی توہین کرتے ہیں، بزرگان دین اور خصوصاً اکابر صوفیاء کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کا امیر مجدد اور مہدی ہونے کا مدعی ہے اور آگے کچھ اور بننا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان الزامات کا ثبوت فراہم کرنے میں جتنی محنت کی جارہی ہے اور جس جانقشانی کے ساتھ ہزاروں صفحات کے مضامین میں سے لفظ چن چن کر ہمارے خیالات کا ایک ایسا مجموعہ تیار کیا جا رہا ہے جو خود ہمارے علم میں بھی پہلی بار انہی حضرات کے واسطہ سے آیا ہے۔ وہ چاہے اور کی نگاہ سے مخفی ہو مگر ہماری نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہم اس کمال فن کی داد تو ضرور دیتے ہیں، کیوں کہ ہم ہر کمال فن کے قدر شناس ہیں، خواہ وہ نقب زنی و جیب تراشی ہی کا کمال کیوں نہ ہو۔ مگر معلوم صرف یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کی فکر چھوڑ کر آخر اس کام میں یہ عرق ریزی کیوں کی جا رہی ہے؟ اور یہ اصول، قرآن، حدیث یا طریق سلف میں کہاں سے اخذ کیا گیا ہے کہ تم ضرور ڈھونڈ کر لوگوں کو مطعون کرنے کی وجوہ تلاش کرو اور پھر بھی کام نہ چلے تو اپنی طرف سے کچھ ملا کر فرد جرم مکمل کرو؟

(۵)
ایک اور بات جو ہمارے لیے اس سے کچھ کم حیران کن نہیں ہے، وہ ہمارے معاملہ میں بعض اکابر کے نقطہ نظر کا تغیر ہے جو پچھلے چند برس میں رونما ہوا ہے۔ حالاں کہ ہمارے خیالات برسوں پہلے جو کچھ تھے، وہی آج ہیں اور ہماری تحریرں جن پر آج ہم ضال اور مضل، اور بد بخت اور خبیث تک ٹھہرائے جا رہے ہیں، اس وقت سے بہت پہلے شائع ہوچکی تھے جبکہ ان بزرگوں کی نگاہ میں ہم کم از کم ضال اور مضل تو نہ تھے۔

۱۹۴۵ء کے آغاز میں انجمن اصلاح القریٰ، ریواز آباد، ضلع لائل پور سے جناب مولانا کفایت اللہ صاحب کی خدمت میں ہمارے متعلق ایک استفسار بھیجا گیا تھا۔ اس کا جو جواب مولانا کی طرف سے موصول ہوا، اس کے الفاظ یہ تھے:

’’مودودی صاحب کی تحریرات بیشتر صحیح ہیں اور ان کی تحریک میں نظری طور پر کوئی غلطی اور گمراہی نہیں ہے۔ صرف یہ بات محل غور ہے کہ موجودہ زمانہ میں اس تحریک کے مفید بار آور ہونے کے ظروف مساعد ہیں یا نہیں اور یہ کہ محرک صاحب حال ہے یا صرف صاحب قال‘‘۔

ایک اور صاحب نے ضلع بارہ بنکی سے اسی زمانہ میں مولانا کی خدمت میں جماعتِ اسلامی کے متعلق ایک سوال بھیجا تھا جس کا یہ جواب آیا تھا:

’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نظریہ اصولاً تو صحیح ہے مگر آج کل عملی نہیں ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ حدود شرعیہ جاری ہونی چاہئیں۔ یہ بات اصولاً تو صحیح ہے مگر اس زمانہ میں قطع ید سارق پر اور رجم زانی پر جاری کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ غیر اسلامی حکومت حائل ہے، تاہم اگر کوئی ان کی جماعت میں داخل ہو کر حسب استطاعت اسلامی خدمت کرے تو مضائقہ نہیں ہے‘‘۔

آج وہی مولانا کفایت اللہ صاحب ایک دوسرا فتویٰ صادر فرماتے ہیں جو سہارن پور کے شائع شدہ ایک اشتہار میں یوں درج ہے:

’’مودودی جماعت کے افسر مولوی ابوالاعلیٰ مودودی کو میں جانتا ہوں، وہ کس معتبر اور معتمد علیہ علام کے شاگرد اور فیض یافتہ نہیں ہیں۔ اگر چہ ان کی نظر اپنے مطالعہ کی وسعت کے لحاظ سے وسیع ہے، تاہم دینی رجحان ضعیف ہے، اجتہادی شان نمایاں ہے اور اسی وجہ سے ان کے مضامین میں بڑے بڑے علماکرام بلکہ صحابہ کرام پر بھی اعتراضات ہیں اس لیے مسلمانوں کو اس تحریک سے علیحدہ رہناچاہیے اور ان سے میل جول ربط و اتحاد نہ رکھنا چاہیے ان کے مضامین بظاہر دلکش اور اچھے معلوم ہوتے ہیں، مگر ان میں ہی وہ باتیں دل میں بیٹھتی جاتی ہیں جو طبیعت کو آزاد کردیتی ہیں اور بزرگان اسلام سے بدظن بنادیتی ہیں‘‘۔

اسی ۴۵ء کے آخری مہینوں میں مولانا حسین احمد صاحب سے جماعتِ اسلامی کی دعوت کے متعلق سوال کیا گیا تھا اور اس کا جواب انہوں نے یہ دیا تھا:

’’مولانا مودودی کا نظریہ بہت سی تحریروں میں اور رسالوں وغیرہ میں شائع ہوتا رہا ہے۔ مجھ کو اس قدر فرصت نہیں کہ بالاستیعاب دیکھوں۔ جس قدر مضامین نظر سے گزرے ہیں، حالات موجودہ میں ناممکن العمل ہیں۔ واللہ اعلم

میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ موجودہ دور میں اور اس ماحول میں کیا شرعی تکلیف ہم پر ان امور پر حسب دستور عائد ہوتی ہیں یا نہیں‘‘۔

ایک اور صاحب نے جو اس وقت فیروز پور جھرکہ میں نائب تحصیل دار تھے، جماعت کی تمام مطبوعات مولانا کو بھیجی تھیں اور ان سے درخواست کی تھی کہ انہیں ملاحظہ فرما کر یہ بتائیں کہ جمعیت علمائے ہند کے مسلک اور جماعتِ اسلامی کی دعوت میں سے کون حق پر ہے۔ نیز خصوصیات کے ساتھ ’’ایک اہم استفتاء‘‘ کی طرف توجہ دلا کر پوچھا تھا کہ اس پمفلٹ کو پڑھ کر میرا دل اپنی ملازمت سے اچاٹ ہوگیا ہے، آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں۔ اس کا جو جواب حسین آباد ضلع مظفر نگر سے مولانا کے اپنے قلم کا لکھا ہوا (مورخہ ۳۰ الحجہ ۶۴ھ) وصول ہوا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:

’’محترما! میں اس قدر مصروف اور عدیم الفرصت ہوں کہ روزانہ ڈاک کا دیکھ لینا بھی نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ کتابوں کا دیکھنا اور جواب لکھنا، مودودی صاحب فارغ ہیں، جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں چھپوا دیتے ہیں۔ جمعیت العلما ہند نے جو طریقہ سیاسیات میں اختیار کیا ہے، وہ حسب استطاعت اھون البلیتین کی بنا پر ہے۔ موجودہ گردوپیش میں جو طاقت اور قدرت موجود ہے، اسی پر اس کی حرکت و سکون کا مدار ہے۔ مودودی صاحب جو فلسفہ پیش فرما رہے ہیں، اس کے دیکھنے اور اس پر تنقید و تبصرہ کرنے یا اس کا جواب لکھنے کی ضرورت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر آتی بھی تو مہلت نہیں ہے۔ مودودی صاحب اور ان کے موافقین اپنے عمل کو حرکت میں لائیں۔ ہم ان کا مقابلہ نہ کریں گے اور نہ کوئی محاذ قائم کریں گے۔ اگر ہماری سمجھ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے وہی عمل شرعی اور مفید سمجھ میں آیا تو ہم بھی متبع بن جائیں گے۔ ورنہ حسب قاعدہ قرآنیہ لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّہ وُسْعَھَا ہم معذور ہوں گے۔

دوسری چیز آپ نے اپنی ملازمت کے متعلق پوچھی ہے۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں، آپ کو جبکہ دوسرا طریقہ اکل حلال میسر ہے تو آپ کو اس ملازمت کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اگرچہ وہ ’’اہم استفتاء‘‘ میری نظر سے نہیں گزرا مگر جو مضمون آپ نے اس کا ذکر فرمایا ہے، اقرب الی الصواب ہے۔ آپ کے احباب کا حکم میری سمجھ میں نہیں آتا، اگرچہ وہ علما ہیں‘‘۔

آج ٹھیک پانچ برس بعد ذی الحجہ ۶۹ھ میں وہی مولانا حسین احمد صاحب ہمارے متعلق اس رائے کا اظہار فرماتے ہیں جو اس مضمون کے آغاز میں نقل کی جاچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انقلاب رائے اور اس تغیر فکر و نظر کی علت کیا ہے؟ اگر اس وقت سے اب تک کچھ نئی گمراہیاں ہم سے سرزد ہوگئی ہیں، جن سے اس وقت تک ہمارا دامن پاک تھا تو ازروئے عنایت ضرور ہمیں اس سے آگاہ فرمایا جائے۔ یا اگر اب ان حضرات کو ان کتابوں کو پڑھنے سے فرصت مل گئی ہے جنہیں اس وقت پڑھا نہ تھا، اور بالاستیعاب ان کا مطالعہ فرماکر وہ ہماری گمراہیوں پر آج مطلع ہوئے ہیں، تو کم از کم یہی بات بصراحت ارشاد فرما دی جائے۔اور اگر بات یہ نہیں ہے، بلکہ یہ سارے فتوے اور مضامین اب اس لیے برسنے شروع ہوئے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کی بڑھتی ہوئی تحریک سے اپنے حلقہ اثر کے آدمیوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ ان بزرگوں کو لاحق ہوگیا ہے اور ساری فکر انہیں اب ٹوٹنے والوں کو روکنے کی ہے۔ وہی فکر جس نے اشتراکیوں، مسلم لیگیوں، بریلویوں، قادیانیوں، اہل حدیث اور منکرین حدیث کو ہماری مخالفت میں متحرک کر رکھا ہے … تو گستاخی معاف، یہ انداز فکر اہل حق کو زیب نہیں دیتا اور نہ یہ ہتھکنڈے ان کے شایان شان ہیں۔ یہ تو دکان داروں کے سوچنے کا اندازہے کہ مقابل کی دکان ان کے گاہکوں اور آسامیوں کو توڑنے نہ پائے۔ بلکہ شاید کوئی شریف دکان دار بھی، اگر تھوڑی سی خدا ترسی اس میں ہو، اس حد تک گرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا کہ محض گاہک بچانے کے لیے حریف دکان دار کے مال میں کیڑے ڈالنے لگے۔ بہرحال اپنی پوزیشن مشخص کرنا ان حضرات کا اپنا کام ہے۔ رہے ہم، تو الحمد للہ کہ ہم دکان دار نہیں ہیں، نہ کسی کے حریف تجارت ہیں۔ جس چیز کو ہم نے کتاب و سنت رسول اللہﷺ سے حق پایا ہے، اسے خلق اللہ کے سامنے پیش کر رہے ہیں جسے حق معلوم ہو، قبول کرے، اس کا اپنا بھلا ہے۔ جسے حق نہ معلوم ہو، رد کردے، اس کا معاملہ اس کے خدا سے ہے۔ ساری دنیا اسے قبول کرلے تو بجز آخرت کی منفعت کے ہمیں کوئی اجر اس سے مطلوب نہیں اور اگر ساری دنیا اسے ردّ کردے تو ہمارااس سے کوئی نقصان نہیں۔

(۶)
آخر میں ہم تمام علما سے جو اپنے آپ کو اہل حق میں سمجھتے ہوں اور جن کو فی الواقع دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی کچھ فکر ہو۔ تین باتیں صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں:

اوّل یہ کہ ہم اس وقت فسق و ضلالت کی اس حکمرانی کو مٹانے کے درپے ہیں جو علوم افکار پر، اخلاق و معاشرت پر، تہذیب و تمدن پر اور معیشت و سیاست پر قائم ہے اور ہماری تمام کوششیں اس کام کے لیے وقف ہیں کہ زندگی کے ان تمام شعبوں پر خدا کے دین کی حکمرانی قائم ہو۔ آپ حضرات اگر کچھ بھی توسم کی صلاحیت رکھتے ہیں توکھلے کھلے آثار آپ کو یہ بتاسکتے ہیں کہ دین کی حمایت میں اس وقت وہ کونسی مستعد اور منظم طاقت ہے جس کو فسق و ضلالت کی ساری طاقتیں اپنا اصلی حریف سمجھ رہی ہیں اور کس کے خلاف انہوں نے اپنا پورا زور لگا رکھا ہے۔ اشتراکیوں سے پوچھئے کہ علما کے اس پورے گروہ کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہیں یا جماعتِ اسلامی کو؟ منکرین حدیث کی اپنی تحریروں میں دیکھ لیجیے کہ اہل حدیث اور دوسرے تمام حامیان حدیث کے خلاف ان کا غصہ زیادہ بھڑکا ہوا ہے یا جماعتِ اسلامی کے خلاف؟ قادیانیوں کے اپنے اخبارات و رسائل آپ کو بتادیں گے کہ ان کو جماعتِ اسلامی کا زیادہ خوف لاحق ہے یا اپنے دوسرے مخالفین کا؟ مغربیت کے علم برداروں کی تحریرں اور تقریریں اور عملی تدبیریں آپ کے سامنے خود شہادت دیں گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پریشان جماعتِ اسلامی سے ہیں یا باقی ماندہ پورے مذہبی طبقے سے؟ اس حالت میں جبکہ ان طاقتوں سے ہماری کشمکش برپا ہے، آپ کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کا وزن کس پلڑے کی طرف جا رہا ہے۔ آپ لڑنا چاہتے ہیں تو شوق سے لڑیں مگر اپنا انجام سوچ لیں۔ اگر خدا کے ہاں آپ سے باز پرس ہوئی اور پوچھا گیا کہ جب طاعت اور فسق اور ہدایت اور ضلالت کے درمیان معرکہ برپا تھا تو تم نے کس کو کس پر ترجیح دی تھی، اس وقت آپ کیا جواب دیں گے؟ اس وقت آپ اپنے یہ فتوے اور یہ مضامین اور یہ اعتراضات حجت میں پیش کرکے بچ نکلنے کی توقع رکھتے ہوں اور آپ کو امید ہو کہ ہماری خطائیں اور لغزش گنا کر آپ ثابت کرسکیں گے کہ اس معرکہ کے فریقین میں دراصل کشتنی و گردن زنی ہم ہی تھے، تو بسم اللہ، اپنی مہم جاری رکھیے اور کچھ کسر ابھی باقی رہ گئی ہو تو اسے بھی پورا کر ڈالیے۔

دوم یہ کہ فی الحقیقت آپ میں سے کوئی نفسانیت کی بنا پر نہیں بلکہ حقانیت کی بنا پر ہم سے ناراض ہے تو اس کو چاہیے کہ زبان کھولنے سے پہلے انصاف کے ساتھ ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرکے اس معاملہ میں ایک جچی تلی رائے قائم کرلے کہ آیا ہماری حیثیت ایک ایسے گروہ کی ہے جس سے صرف اختلاف کیا جاسکتا ہے، یا ایسے گروہ کی جس کی مخالفت بھی کرنی ضروری ہے، یا ایسے گروہ کی جو مذکورہ بالا معرکہ کے فریقین میں سے اس بات کے لیے احق ہے کہ آپ اس کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں؟ چوں کہ اس وقت کشمکش برپا ہے، اور ایک قطعی فیصلہ پر پہنچے بغیر ختم ہونے والی نہیں ہے، اس لیے آپ کو متفرق مسائل پر اپنی اعتراضی تقریرں مرتب کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا اپنی تمام کردہ ناکردہ خطاؤں کے باوجود ہم لوگوں کی بہ نسبت آپ حضرات کے لیے زیادہ قابل برداشت وہ ہیں جو یہاں فسق و ضلالت پھیلا رہے ہیں، یا ہم ایسے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں اشتراکی، قادیانی، منکرین حدیث اور فرنگیت کے علم بردار سب کو آپ برداشت کرسکتے ہیں؟

سوم یہ کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ اعلان ہے اور آج بھی ہم اس پر قائم ہیں کہ ہماری جس بات کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے خلاف ثابت کردیا جائے، ہم بلاتامل اس سے رجوع کرلیں گے۔ اب اگر ہم سے اختلاف رکھنے والے حضرات محض فتنہ پردازی نہیں چاہتے بلکہ اختلافات کا تصفیہ چاہتے ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے، اور یہ راستہ کھلا ہے کہ انہیں ہم پر جتنے بھی اعتراضات ہوں، وہ انہیں یک جا نمبر وار لکھ کر ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم انشاء اللہ ان کی تحریر کو ان صفحات میں لفظ بلفظ درج کریں گے اور اپنے جوابات سے ان کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کریں گے یا اگر وہ خود اپنے ہی کسی اخبار یا رسالے میں اپنے اعتراضات شائع کرنا پسند فرمائیں گے تو ہم اس شرط کے ساتھ ان کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں کہ اوّل تو آئے دن کی طعنہ زنی بند کرکے اپنے جملہ اعتراضات بیک وقت مرتب فرمادیں، دوسرے یہ کہ وہ اس بات پر راضی ہوں کہ جس طرح ہم ان کے اعتراضات کو لفظ بلفظ نقل کرکے ان کا جواب دیں گے۔ اسی طرح وہ بھی ہمارے جواب کو اپنے ہاں لفظ بلفظ نقل کرکے پھر جو چاہیں خامہ فرسائی کریں۔

(ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۷۰ھ ، جون ۱۹۵۱ء)