’’سبع سماوات‘‘ اور ’’رفع طور‘‘ کی صحیح تاویل:

سوال: آپ نے سورہ بقرہ کے حاشیہ نمبر ۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔ آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیوں نہیں کرتے؟

اسی طرح سورہ بقرہ کے حاشیہ نمبر ۸۱ پر جو عبارت آپ نے لکھی ہے، اس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ طور کے اٹھائے جانے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس کے متعلق بھی صراحت کریں کہ آپ کو یہ واقعہ تسلیم ہے یا نہیں؟

جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر سات آسمانوں کی حقیقت کسی کو معلوم ہو تو وہ براہ کرم اس کو ضرور بیان کرے۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اس کی حقیقت کا تعین کرنا مشکل ہے اور اگر کسی ایک زمانے کے ’’علم ہیئت‘‘ کی بنا پر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اس خالص زمانے کا علم ہیئت بیان کر رہا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے۔ علم ہیئت کے نظریات و مشاہدات بدلتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کسی چیز کو قرآن کی طرف منسوب کردینا درست نہیں ہے۔ آپ حضرات اپنے مدرسوں میں جس علم ہیئت کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں، اور جس کی بنا پر قدیم مفسرین میں سے بہتوں نے آسمان کی حقیقت بیان کی ہے، اب اس کی بساط مدت ہوئی لپیٹی جاچکی ہے اور نئے مشاہدات نے اس علم کی دنیا ہی بدل دی ہے۔ ان چیزوں پر اگر آپ لوگ آج اصرار کریں گے تو غلط کریں گے اور اگر ان کو قرآن کی طرف منسوب کریں گے تو لوگوں کے ایمان بھی خطرے میں ڈالیں گے۔

سورہ بقرہ کے حاشیہ نمبر ۸۱ اور آیت نمبر ۸۳ کا ترجمہ پڑھ کر اگر آپ یہی سمجھے ہیں کہ میں طور کے اٹھائے جانے کا انکار کر رہا ہوں تو اللہ آپ کے فہم پر بھی رحم فرمائے اور میرے حال پر بھی۔ ذرا براہ کرم وہ الفاظ پھر پڑھ کر دیکھیے جن سے آپ انکار کا مفہوم نکال رہے ہیں، میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ اس کی تفصیلی کیفیت معلوم کرنا مشکل ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اسی ایک واقعہ کو دو جگہ دو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ رفع کا لفظ ہے جس کے معنی اٹھانے کے ہیں اور دوسری جگہ نتق کا لفظ ہے جس کے معنی اکھاڑنے اور جھڑجھڑانے کے ہیں۔ اس لیے تعین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا پہاڑ کو بالکل زمین سے اٹھا لیا گیا تھا، یا یہ اس کو جڑ سے اکھاڑ کر زمین پر رکھے رکھے ہی اس طرح ان کے سروں پر ہلایا گیا تھا کہ اس کے ان پر اوندھ جانے کا خطرہ تھا۔

(ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)